آخری چٹان - نسیم حجازی
پہلا حصہ - بغداد
یوسف بن ظہیر
1پارٹ نمبر
صحرائے عرب سے اسلام کا چشمہ پھوٹا اور وہ ریگ زار جنہیں صدیوں سے
کسی سیاح نے قابل توجہ نہ سمجھا تھا ،زمانے کی نگاہوں کا مرکزبن گئے۔جہالت کی تاریکیوں میں بھٹکنے والی انسانیت جس آفتاب ہدایت کی منتظر تھی ،وہ فاران کی چوٹیوں سے نمودار ہوا ۔
اس دن جب آمنہؒ کے لال ،عبدالمطلبؒ کے پوتے کا نام محمد(ﷺ) تجویز کیا جارہا تھا ،مصور فطرت دنیا کے نقشے میں ایک نیا رنگ بھررہا تھا۔قدرت اقوام عالم کی رہنمائی عربوں کو سونپ رہی تھی اور مورخ تاریخ عالم کا ایک نیا باب لکھ رہے تھے۔رحمت کے فرشتے،غلای اور جہالت کی زنجیروں میں جکڑی ہوی مجروح انسانیت کو حیرت اور اخوت اور مساوات کا سبق دے رہے تھے۔
عرب کے صحرانشیں لات وہبل کو توڑ کراُٹھے اور دنیا پر رحمت کی گھٹابن کر چھا گۓ اور ان کے لوہے نے ہر لوہے کو کاٹا۔ان کی تہذیب ،تمدن اور اخلاق نے ہر تہذیب ہر تمدن اور ہر اخلاق پر فتح حاصل کی۔انھوں نے دنیا سے فساد کے درخت کی جڑیں کاٹیں اور باغ آدم میں اپنے خون سے صلح وامن کے درخت کی آبیاری کی۔کفر کی تاریکیاں دوپہر کے ساۓکی طرح سمٹ رہی تھیں۔قیصرو کسرٰی کےاستبداد کےمحل مسمار ہوچکے تھے۔غازیان اسلام کی فتوحات کا جھنڈا ایک طرف کوہ البرز کی برفانی چوٹیوں اور دوسری طرف افریقہ کے تپتے ہوۓ ریگ زاروں میں لہرارہا تھا۔ان کے گھوڑے بیک وقت مشرق میں ہندوستان اور مغرب میں اسپین کے دریاؤں کا پانی پی رہے تھے۔تیرہ سو برس کے بعد آج بھی ایک مورخ حیران ہوکر یہ سوال کرتا ہے کہ عربوں کے گھوڑوں کی رفتار غیر معمولی تھی یا قدرت نے ان کے سامنے زمین کو سمٹنا سکھا دیا تھا۔
یہ ایک انقلاب تھا، ایک روشن انقلاب۔ قدرت نے عرب کے ریت کے ذروں کو ستاروں چمک عطا کی اور انھیں دنیا کے تاریک ترین گوشوں میں بکھیر دیا۔
لیکن چھ سو سال بعد ایک اور انقلاب آیا، ایک تاریک انقلاب! شاید اسلام کے چراغ نے جس تاریکی کا کئی صدیوں تعاقب کیا تھا۔چاروں اطراف سے سمٹ کر صحرائے گوبی میں پناہ لے چکی تھی۔ شاید اس آگ کی چنگاریاں جسے عرب کے پانی سے بجھایا جا چکا تھا۔ صحرائے گوبی کی ٹھنڈی ریت میں دب کر سلگ رہی تھیں اور چھ سو برس سے اس انتظار میں تھیں کہ خرمن اسلام کے محافظ کب سوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خرمن اسلام کے محافظ ایک مدت سے اونگھ رہے تھے اور کفرکی آگ چھ سو برس اس لیے دبی رہی کہ قرون اولیٰ کے مجاہدین کی داستانیں اس کے لیےپانی کے چھینٹوں کا کام دیتی رہیں۔ دشمنانِ اسلام کو دولت عباسیہ کے کھوکھلے محل بھی اس قوم کے ناقابلِ تسخیر قلعے دکھائی دیتے تھے جس کے اسلاف نے پہلی صدی ہجری میں دنیاکے بڑے بڑے جابر بادشاہوں کے تاج اپنے پائوں تلے دوند ڈالے تھے۔قریباً چھ سو سال کے بعد جبرو استبداد کی وہ ہوس جو روم و ایران کی سطوت کے کھنڈروں میں سو رہی تھی، صحرائے گوبی کے ایک چرواہے کے وجود میں نمودار ہوئی۔ اس چرواہے کا نام تموجن تھا، بعد میں وہ چنگیز خان کے نام سے مشہور ہوا۔
دنیا کا وہ فاتح جس کے اقبال کا سفینہ خون کے دریا میں تیرتا تھا، جس کے مقدرمیں ظلمت کے طوفانوں کی رہنمائی تھی۔ اسی چنگیز خاں کی قیادت میں منگولیا کے وحشی قبائل ایک آندھی کی طرح اٹھے اور تہذیب کا ہر چراغ بجھاتے ہوئے دنیا کے چاروں طرف چھا گئے۔چھ سو برس قبل جو بادل صحرائے عرب سے نمودار ہوئے تھے، انہوں نے باغ آدم پر رحمت کے موتی نچھاور کیے تھے لیکن چھ چھ سو برس بعد صحرائے گوبی سے جو آندھی نمودارہوئی۔ اس میں بادلوں کی بجائے پھٹے ہوئے آتش فشاں پہاڑوں کا دھواں تھااور اس دھوئیں کے بادلوں کے لحاف میں اس آتشیں مادے کا بےپناہ سیلاب تھا، جو شہروں اور بستیوں کو جلاتا ہوا گزر گیا۔بابل،نینو اور پومپی آئی کے کھنڈر دیکھ کر انسان کی روح قدرت کے جن تخریبی عناصر کی ہمہ گیری
کا اعتراف کرتی ہے۔ وہ تاتاریوں کے آتشیں طوفان کے سامنے بے حقیقت بن کر رہ جاتے ہیں۔
کا اعتراف کرتی ہے۔ وہ تاتاریوں کے آتشیں طوفان کے سامنے بے حقیقت بن کر رہ جاتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment