February 19, 2020

Akhri Chattan Urdu Novel by Naseem Hajazi Part 02

آخری چٹان - نسیم حجازی

پہلا حصہ 
یوسف بن ظہیر
 پارٹ نمبر  2

مہذب دنیا کے لیے جنگیز خاں کا افواج کا طریق جنگ بالکل نیا تھا۔ دنیا ان کے لیے ایک وسیع شکارگاہ تھی۔ خانہ بدوش تاتاریوں کے پاس گھوڑوں کی کمی نہ تھی۔ بھیڑبکریوں کے علاوہ وہ گھوڑوں کے گوشت اور دودھ پر گزارہ کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ جنگل کے ہرجانور کا گوشت کھا  جاتے تھے۔ صحراےَ  گوبی میں شہروں اور بستیوں کا نام نہ تھا۔ اگرکہیں بارش ہوجاتی تویہ خانہ بدوش وہاں  جا  نکلتے اور  جب تک ان کے مویشی گھاس کا آخری تنکاہ تک نہ چرا لیتے ، وہ وہیں رہتےاور پھر جب کوئ مسافرکہ پیغام دیتاکہ فلاں مقام پر بارش کے چند چھینٹے پڑےہیں تو ادھرکارخ کر لیتے ہیں۔ بعض اوقات نئی چراگاہوں کی تلاش میں ایک قیبلے کی دوسرے قیبلے سےمٹھ بھیڑہو جاتی اور طاقت ور اپنےکمزورحریف کے مویشیوں پر قابض ہونے کے علاوہ اس کے زنومردکو بھی غلام بنا لیتا۔اس لیے کمزورقبائل اپنی حفاظت کے لیےمتحد ہوکرکسی طاقتور آدمی کو اپنا امیر بنا لیتےتھے۔سردیوں میں شمال کی سردہواوں سے یہ تمام علاقہ کرة مہریربن جاتا۔ریت کے تودوں برف کی چادر بچھ جاتی۔چارہ نہ ہونےکی وجہ سے مویشیوں کا دودھ سوکھ جاتا اور وہ گرمیوں کے بچائے ہوئےخشک گوشت پر گزارہ کرتے۔ کبھی کبھی تیزآندھیاں ان کے خمیے اڑاکرلے جاتیں اور ان کےمویشیوں کو ادھر اُدھرکردیتیں۔
فطرت کے ساتھ ایک دائمی جنگ نے ان لوگوں کوحددرجہ جفاکشں بنادیا تھا۔وہ کئی کئی دن تک گھوڑے کی پئٹھ پربیٹھ سکتے تھے۔
چنگیزخان نےبڑےبڑےسرداروں کی سر کوبی کرنے کے بعد انھیں اپنا مطیع فرمان بنا لیا۔پھرخانہ بدوش تاتاریوں کے سامنے ان ممالک کے نقشے پیش کیے،جہاں لہلہاتےباغات،سرسبزکھتیاں اورسدا بہارچراگاہیں تھی۔لوٹ مار کی ہوس نے تمام خانہ بدوشوں کو چنگیز خان کے جھنڈےتلے جمع کردیا۔تاتاری ہمسایہ ممالک پر بھوکے عقابوں کی طرح جھپٹے اور امن زندگی نے تن آسان بنا دیاتھا،ان کےحملوں کی تاب نہ لاسکیں۔ چند برس میں چنگیز خان کی افواج شمال اور مشرق جے کئی ممالک پرقبضہ کر چکی تھیں۔ہمسایہ سلطنیں ان کی فتومات کی رفتار پر حیران تھیں۔وہ ایک ایک دن میں کئی کئی منازل طے کرتے اور بیک وقت کئی  مقامات سے دوسرے ممالک پر یلغار کر دیتے۔ ان ممالک کی افواج حملہ آوروں کو روکنے کے لیے کسی ایک سرحد پرجمع ہوتیں، چنگیز خان کی فوج کا ایک حصہ ان کا مقابلہ کرتا اور باقی افواج مخالف سمتوں سے ملک میں داخل ہو   کر شہروں اور بستیوں پر قبضہ کر کے سلطنت کا تمام نظام مفلوج کر دیتیں۔ بعض اوقات یوں بھی  کہ کسی ملک کا سپہ سالارتاتاریوں کی پشیں قدمی سے با خبر ہو کر ان کا راستہ روکنے کے لیے سرحدپرپڑاو ڈال دیتا۔اس کے جاسوس اسے ہر روز یہی خبر دیتے کہ حملہ آوروں کا رخ اسی طرف ہے لیکن ایک صبح کوئی ایلچی یہ پیغام لے کر آجاتا کہ چنگیز خان کی باقی افواج نے دوسری سرحد عبور کر کے دارلحکومت پر قبضہ کر لیا ہے۔
تاتاریوں کی حیرت انگیز کامیابی کاراز ان کی رفتار میں تھا۔وہ گھوڑوں کی ننگی پیٹھ پر سواری کرتے تھے۔ہر سوار کے ساتھ کئی کئی گھوڑے ہوتے تھے۔جب ایک گھوڑا تھک جاتا تو سوار دوسرے گھوڑےپر بیٹھ جاتا۔یلغارکے وقت سوار کو اگربھوک محسوس ہوتی تو وہ گھوڑے کی پیٹھ پر زخم کر کے اس کے خون چند گھونٹ چوس لیتا۔لمبے سفر میں بھی تاتاری اپنے ساتھ بہت تھوڑا سامان رسد اٹھاتے تھے۔جنگل میں وہ فالتو گھوڑے کھا لیتے اورراستے کے شہروں اور بستیوں سے مویشی چھین لیتے ۔ اگر کسی شہر کےباشندے مزاحمت کے بغیر ہتھار ڈال دیتے توتاتاری صرف ان لوگوں کو قتل کرتے جنھیں سپاہیانہ خدمت کے قابل سمجھا جاتا تھا۔  تاہم ہر سپاہی مفتوح قوم کی عورتوں کی بے حرمتی کرنا اپنا حق سمجھتا تھا  اگر کوئی شہر مزاحمت کے بعد فتح ہوتا تو مکانوں کو آگ لگادی جاتی اور مکینوں کوقتل کر دیا جاتا۔ہر فوج کا جرنیل اپنے سپاہیوں کو  فتح کی یادگار تعمیر کرنے کا حکم دیتا اور تاتاری سپاہی نوجوانوں کے علاوہ بچوں،بوڑھوں اور عورتوں کے سرکاٹ کرمینار بنا دیتے۔پھر جس فوج کا مینار سب سے بلند ہوتا،اس کے افسروں اور سپاہیوں کو چنگیز خان شاباش دیتا۔بعض اوقات دو سپاہیوں میں اس بات پر جھگڑا بھی ہو جاتاکہ تمہارا مینار اندرسےکھوکھلا ہے ورنہ آج میری فوج نے زیادہ سر کاٹےہیں۔یہ وہ قوم تھی جس کے ہاتھوں عالم اسلام کی عبرت ناک تباہی مقدر ہو چکی تھی۔اس عالم اسلام کی تباہی،جوانتشاراورلامرکزیت کی آخری حد تک پنہچ چکا تھا۔ان مسلمانوں کی تباہی جو غفلت کی نیند سو رہے تھے،جو احکام الہی پر عمل پیرا ہونے کی بجائے اپنی خواہشات کے مطابق اس کی تاویلیں گھڑنے کے عادی ہو چکے تھے۔ان کے پاس آدھی دنیا کو فتح کرنے والےاسلاف کی تلواریں اب بھی تھیں لیکن اسلاف کا ایمان نہ تھا۔

No comments:

Post a Comment