February 20, 2020

Hazrat Abu Bakkar Siddique R.A - Adab Kutab 10

خلیفہ بلافصل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ


یوں تو نبی ﷺ کے تمام صحابہؓ آسمانِ ہدایت کے روش ستارے ہیں،ہر ایک صحابیؓ ہدایت کی روشنی سے منور و مزین ہے،ہر ایک صحابیؓ معیارِحق اور معیارِدین ہے،ہر ایک صحابیؓ شاہراہِ ہدایت کا روشن مینارہ ہے۔لیکن اللہ کا ایک قانونِ فطرت ہے۔۔۔"ورفعنا بعضھم فوق بعض" اسی قانونِ الہی کیمطابق جو عزّت،عظمت،رِفعت،منقبت،شان اور مقام سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو حاصل ہے وہ کسی اور کو نہیں ہے۔خود آقا دوجہاں ﷺ نے ارشاد فرمایا"افضل البشر بعدالانبیاء ابوبکر" کہ تمام انسانوں میں انبیاء کے بعد سب سے افضل و اشرف ابوبکرؓ ہیں۔
آپؓ کا نام پہلے عبدالکعبہ تھا۔آپ ﷺ نے تبدیل کر کے عبداللہ رکھا۔آپؓ کی کنیت ابوبکر تھی۔صدیق اور عتیق دونوں آپکے لقب تھے۔یہ دونوں لقب نبی کریمﷺ نے عطا کیے۔والد کا نام عثمان اور کنیت ابو قحافہ تھی۔آپؓ قریش کے قبیلہ بنو تیم کے چشم و چراغ تھے۔جو عرب کے ہاں وجاہت کا حامل تھا۔آپؓ کا شجرہ نسب جدامجد میں  مرہ بن کعب پر پہنچ کر نبی کریمﷺ سے جا ملتا ہے۔آپؓ واقعہ فیل سے تین سال بعد 574ء میں پیدا ہوۓ۔اسطرح آپؓ صرف دو سال نبی کریمﷺ سے چھوٹے تھے۔اٹھارہ سال کی عمر میں آپؓ کی دوستی نبی کریمﷺ سے قائم ہوئی،جو تادمِ مرگ قائم رہی۔یوں آپؓ 43 سال کا طویل عرصہ نبی کریمﷺ کی صحبت میں رہ کر فیضیاب ہوتے رہے۔

آپؓ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ مردوں میں سب سے پہلے اسلام لاۓ۔آپؓ کی والہانہ محبت کا اندازہ اس فرمانِ نبوی ﷺ سے لگائیے کہ"ابوبکر کے علاوہ کوئی بھی ایسا شخص نہیں جسے میں نے دعوت دی اور اس نے بغیر کسی تاْمل،سوچ وبِچار،غور و فِکر کے اسلام قبول کر لیا ہو"۔آپؓ نے اسلام لاتے ہی نبی کریمﷺ کی دعوت کو پھیلانا شروع کیا۔چنانچہ عثمانؓ جیسے جلیل القدر صحابی آپؓ ہی کی دعوت پر مسلمان ہوۓ۔آپؓ نے سب سے پہلے خانہ کعبہ میں اعلانیہ اسلام کی دعوت دی۔آپؓ کو تمام صحابہؓ میں  یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپکی چاروں پشتیں مسلمان ہوئیں: والدین،خود،اولاد،پوتے،پوتیاں،نواسے،نواسیاں۔
آپؓ سفر،حضر میں نبی کریمﷺ کے ساتھ رہے۔مکی زندگی میں ہر طرح کی قربانی پیش کی۔۔۔جب مسلمان مشرکین کے مظالم سے تنگ آکر حبشہ جانے لگے تو ابوبکرؓ نے بھی تیاری کی اور چل پڑے،مگر مشیت چاہتی تھی کہ ہجرِ یار کی گھڑیاں اس مقدس یارانے میں نہ آنے پائیں۔بالاخر مکہ ہی میں رہ کر درِ نبوت کا پہرہ دیتے رہے۔وقت گزرتا گیا۔۔۔مشرکین کے مظالم بڑھتے چلے گئے۔۔۔حکم ہوا مسلمان مدینہ کی طرف ہجرت کریں۔۔۔جوق در جوق صحابہؓ مدینہ جانے لگے۔۔۔جب مدینہ میں استقبالِ نبوت کی تیاریاں مکمل ہو گئیں اور انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے کو آئیں۔۔۔تو اذنِ خداوندی سے محبوبِ خداﷺ نے مدینے کا رختِ سفر باندھا۔رات کی تاریکی۔۔۔چاروں طرف سے مشرکین کا گھیراؤ ۔۔۔۔ننگی تلواریں۔۔۔اس پُرخطر وقت میں آقاﷺ اپنے بستر پر سیدنا علیؓ کو سلاتے ہیں۔۔۔اور وجعلنا من بین ایدیھم سدا ومن خلفھم سدا فاغشیناھم فھم لایبصرون کا ورد کرتے ہوۓ۔۔۔مشرکین کی آنکھوں میں خاک ڈالتے ہوۓ بیچ سے گزر جاتے ہیں۔۔۔اِدھر سیدنا ابوبکرؓ عرصے سے سفر کیلیے اونٹنیاں تیار کیے۔۔۔رفیق سفر بننے کیلیے اشارے کے منتظر ہیں۔۔۔اچانک دروازے پر دستک ہوتی ہے۔۔۔ساری دنیا جسکے در پر حاضر ہوتی ہے آج وہ شخصیت سیدنا ابوبکرؓ کے دروازے پر کھڑی ہے۔۔۔واہ ابوبکر! تیری عظمت کے کیا کہنے۔۔۔تیری شان کے کیا کہنے۔۔۔ساری دنیا جب مخالف ہو جاۓ۔۔۔اپنے بھی جب ساتھ چھوڑ دیں۔۔۔ایسے میں وفاؤں کا پتہ چلا کرتا ہے۔آج ایسے رفیقِ سفر کی ضرورت تھی جو ہمراز بھی ہو،معتمد بھی ہو،جانثار بھی ہو،وفادار بھی ہو۔۔۔اور ابوبکرؓ سے بڑھ کر ان صفات کا حامل کون ہو سکتا تھا۔۔۔؟چنانچہ اشارہ ہوتا ہے اور سواری کیلیے اونٹنیاں پیش کی جاتی ہیں۔۔۔سفر کا آغاز ہوتا ہے۔۔۔صبح ہوتے ہی اعلان ہوتا ہے۔۔۔جو محمد(ﷺ) یا ابوبکر(رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ) کو گرفتار کر کے لاۓ گا سو اونٹ انعام میں دیۓ جائیں گے۔۔۔ہر طرف تلاش جاری ہے۔۔۔عقل حیران ہے رات و رات گئے توکہاں گئے۔۔ادھر مصلحت کے تحت دونوں یار غار ثور کا رخ کرتے ہیں۔۔۔غارِ ثور کی چڑھائی اور سنگلاخ راستہ۔۔۔ابوبکر کندھوں پر جسمِ نبوت کو اٹھاۓ ہوۓ چڑھتے جا رہے ہیں۔۔۔غار کے دہانے پر نبوت کو کھڑا کر کے ابوبکرؓ غار کی صفائی کرتے ہیں۔۔۔اپنی چادر کے ٹکڑوں سے سوراخ بند کرتے ہیں۔۔۔ایک سوراخ اپنی ایڑھی سے بند کرتے ہیں۔۔۔سارے جہاں کا محسنﷺ آج غار کا مہمان ہے۔۔۔اللہ اللہ! غار کی تنہائی۔۔۔سیدنا ابوبکرؓ کی گود....والضحیٰ کا مکھڑا رکھا ہے۔۔۔والیل والی زلفیں بکھری ہوئی ہیں۔۔۔ساری دنیا جس کا چہرہ انور دیکھنے کو ترستی ہے۔۔۔آج وہی رخِ زیبا جھولی میں رکھا ہے۔۔۔مشیت کہہ رہی ہوگی اے ابوبکر! دیکھ،باربار دیکھ،یہ تیری جانثاری کا بدلہ دنیا میں ہے۔۔۔ساری دنیا کاخزانہ تیری جھولی میں ہے۔۔۔سیدنا ابوبکرؓ بھی دیدارِ مصطفیﷺ سے آنکھوں کو پرنور اور دل کو مسرور کر رہے ہیں۔۔۔اتنے میں سانپ سوراخ تلاش کرتاہوا اس سوراخ پر پہنچتا ہے،جہاں ایڑھی رکھی ہوئی تھی۔۔۔۔راستہ بنانے کیلیے ایڑھی پر ڈنگ مارتا ہے مگر جانثار کی ایڑھی ہلتی تک نہیں۔۔۔نبوت آرام فرما ہے۔۔۔درد کی شدت ہے۔۔۔بلاخر آنسو نکلتے ہیں اور بجاۓ زمین کے چہرہ نبوت پر گرتے ہیں۔۔۔آقاﷺ کی آنکھ کھلتی ہے۔۔۔ابوبکرؓ! کیا ہوا؟
یارسول اللہﷺ سانپ ڈنس گیا ہے۔۔۔آقاﷺ نے اپنے دہن مبارک کو ایڑھی پر لگایا اور درد جاتا رہا۔۔۔مشرکین ڈھونڈتے ہوۓ غار کے دہانے پر پہنچے۔۔۔ابوبکرؓ کو حزن ہوا کہ کہیں میرے محبوبﷺ کو تکلیف نہ پہنچائیں تو لاتحزن ان اللہ معنا کہہ کر تسلی دی گئی۔۔۔تین دن قیام(جسکا ذکر قرآن ثانی اثنین کی صورت میں کرتا ہے) کرنے کے بعد آگے روانہ ہوۓ۔۔۔چلتے چلتے کبھی ابوبکرﷺ دائیں طرف تو کبھی بائیں طرف،کبھی آگے تو کبھی پیچھے ہوتے۔۔۔کہ کسی طرف سے بھی تکلیف پہنچے تو محبوب خداﷺ کے بجاۓ مجھے پہنچے۔۔۔مدینہ پہنچتے ہی عُشّاق کے ہجوم نے طلع البدر علینا۔۔۔کے ترانے گاتے ہوۓ خوب استقبال کیا۔۔۔یار یار کے رنگ میں اتنا رنگا ہوا تھا کہ فرق نہیں ہو رہا تھا کہ نبی کون ہے اور صدیق کون ہے۔۔۔عُشّاق صدیق کو نبی سمجھ رہے تھے۔۔۔ابوبکرؓ اٹھے اور چادر سے آقاﷺ پر سایہ کیا تاکہ سب جان سکیں میں آقا نہیں بلکہ آقا کا غلام ہوں۔مکی زندگی کی طرح مدینہ میں بھی آقادوجہاںﷺ کے ساتھ ساۓ کی طرح رہے۔۔۔تمام غزوات میں ساتھ رہے۔۔۔نبیﷺ کا گھر بسانے کی ضرورت تھی تو بیٹی دیکر دوستی کا حق ادا کیا۔۔۔ مال کی ضرورت پڑی تو سب کچھ لاکر نبیﷺ کے قدموں میں ڈال دیا۔۔۔زمین کی ضرورت تھی تو خرید کر وقف کر دی۔۔۔سن 9 ہجری میں آپؓ کو پہلا امیرالحج بنا کر مکہ میں بھیجا گیا۔۔۔جب نبی کریمﷺ مرض الوفات میں تھے تو حکم دیا ابوبکرؓ نماز پڑھائیں(دراصل یہ خلافت صدیقی کی طرف اشارہ تھا کہ میرے جانشین یہی ہونگے)چنانچہ سترہ یا اکیس نمازیں آپﷺ کی زندگی میں ابوبکرؓ نے پڑھائیں۔۔۔جب نبی کریمﷺ کی وفات کا جانگُداز واقعہ پیش آیا تو صحابہؓ غم سے نڈھال ہو چکے تھے۔۔۔فراقِ یارﷺ کا غم سب کچھ بھلا چکا تھا۔۔۔عمرؓ جیسے باہمت ہمت ہار چکے تھے۔۔۔شیرِخداؓ بھی حوصلہ پست کر چکے تھے۔۔۔ریاستِ مدینہ کی کشتی ڈوبتی ہوئی نظر آرہی تھی۔۔۔سازشوں کی طلاطم خیز موجیں ریاست سے ٹکڑا رہی تھیں۔۔۔مخالفتوں کے بادل سر پر منڈلا رہے تھے۔۔۔ایسے میں صحابہؓ نے نبی کریمﷺ کی جانشینی کیلیے جس شخصیت کا انتخاب کیا وہ ابوبکرؓ ہی تھے۔۔۔اسی وجہ سے ابوبکرؓ کو خلیفہ بلافصل کہا جاتا ہے۔(یعنی نبیﷺ اور ابوبکرؓ کی خلافت کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں)آپؓ نے ریاستِ مدینہ کی باگ ڈور سنبھالتے ہی مختلف اندورنی و بیرونی خطرات سے نبردآزمائی کی اور تمام سازشوں کو سر کر کے  ریاست کو استحکام بخشا۔۔۔سادگی کی اعلی مثال قائم کی۔۔۔جمعِ قرآن کا فریضہ ادا کر کے امت پر احسان کیا۔۔اپنے دورِ خلافت میں ایسے کارہاۓ نمایاں سرانجام دیے جو تاریخِ اسلام  کے روشن پہلو ہیں۔۔۔بلاٰخر وقتِ اجل آن پہنچا اور نبی کریمﷺ کیطرح زندگی کی ٦٣ بہاریں دیکھنے کے بعد آپؓ  ٢٢جمادی الاخرٰی،١٣ ہجری،بروز سموار مغرب و عشاء کے درمیان دارِفانی سے دارِباقی کیطرف منتقل ہوۓ۔یوں دو سال،تین ماہ، دس دن کا مختصر عرصہ خلیفہ رسولﷺ رہنے کے بعد جنت میں اپنے آقاﷺ کے قدموں میں جا سوۓ۔
بقول اقبالٓ
پروانے کو شمع بلبل کو پھول بس
صدیق کیلیے خدا کا رسول بس

No comments:

Post a Comment