Army Base Novel | Jasoosi Novel
Pyar Muhabbat Aur Jasoosi Episode 01
پلیز بغیر اجازت کہیں بھی کاپی پیسٹ نہ کریں۔
نام ناول: پیار، محبت اور جاسوسی
راٸٹر: محمد فرحان یعقوب۔
”بھاٸی کہاں کھوٸے ہوٸے ہیں آپ، کب سے آوازیں دے رہا ہوں۔“ اسلم نے اس کے کان میں چیختے ہوٸے کہا۔
”آآآآء۔۔۔۔۔!! یار آرام سے، تم نے مجھے ڈرا دیا ہے میری تو جان ہی نکلنے والی تھی۔“
یوسف اپنی خوف زدہ حالت پر قابو پاتے ہی غصے میں بولا۔
”معافی چاہتا ہوں بھاٸی۔“
اسلم نے یوسف سے معذرت کرتے ہوٸے کہا۔
”کیوں چِلا رہے تھے میرے کان میں، بتاٶ کیا بات ہے؟“
یوسف نے اسلم سے پوچھا۔
”بھاٸی وہ تو میں آپ کو تب ہی بتاٶں گا، جب آپ یہ بتاٸیں گے کہ کہاں گم تھے۔“
اسلم نے یوسف سے شرارتی انداز میں سوال کیا۔
”تم لوگ اپنی شرارتوں سے باز نہیں آٶ گے کیا۔؟ اندر آ جاٶ کنول تم بھی، مجھے معلوم ہے تم چُھپ کر باتیں سن رہی ہو۔“
یوسف نے دروازے کی طرف دیکھے ہوٸے ہلکی اونچی آواز میں کہا۔
”بھاٸی ہم تو بس آپ کو لینے آٸے ہیں۔ آپ کو تنگ کرنے کا اسلم بھاٸی کا آٸیڈیا تھا۔“
کنول نے اندر آتے وقت اپنی صفاٸی پیش کرتے ہوٸے کہا۔
”مجھے معلوم ہے تم کتنی معصوم ہو، خیر چھوڑو یہ سب اور بتاٶ کیوں لینے آٸے تھے مجھے۔“
یوسف نے لہجے کو سنجیدہ کرتے ہوٸے ہوٸے سوال کیا۔
”یوسف بھاٸی آپ کو آغا صاحب یاد کر رہیے ہیں۔“ اسلم نے دروازے کے باہر جاتے ہوٸے بتایا۔
”یار میں ابھی ابھی تو بازار سے آیا ہوں تھوڑی دیر آرام تو کرنے دیتے، یہ آغا صاحب تو جب بھی آتے ہیں مجھے دیکھ نہ لیں تو سکون نہیں آتا ان کو، ان کو کہو میں آ رہا ہوں اور میرا نام محمد یوسف ہے مجھے میرے پورے نام سے پکارا کرو۔“
یوسف نے اسلم کو جواب دیتے ہوٸے کہا۔
”ٹھیک ہے بھاٸی آٸیندہ سے پورا نام لے کر پکارا کروں گا۔“
اسلم نے جواب دیا اور وہاں سے چلا گیا۔
”یہ ہر دفعہ ایسا ہی کرتا ہے۔ آپ اس کو چھوڑیں اور چلیں میرے ساتھ آغا صاحب آپ کو کہیں لے کر جانا چاہتے ہیں۔“
کنول نے یوسف کے بازو کو کھینچتے ہوٸے اٹھایا اور آغا صاحب کی طرف لے جانے لگی۔
”آ رہا ہوں نہ کھینچ کیوں رہی ہو۔ ویسے کہاں لے کر جانا ہے کچھ بتایا انہوں نے۔؟“
یوسف نے چلتے ہوٸے اپنا بازو چُھڑایا اور کنول سے سوال کر دیا۔
”بھاٸی مجھے نہیں پتہ۔ بس انہوں نے اتنا ہی بتایا تھا کہ بازار جانا ہے۔“
کنول نے جواب دیتے ہوٸے ہوٸے بتایا۔
وہ دونوں آغا صاحب کے کمرے کی طرف چل دیے۔
کمرے کے دروازے پر پہنچتے ہی کمرے کے اندر جان محمد آغا صاحب کرسی پر بیٹھے نظر آٸے۔
جان محمد آغا صاحب کو ہر کوٸی آغا صاحب کہہ کر بلاتا تھا۔ وہ پچھلے تیس سال سے اس یتیم خانے کو چلا رہے تھے۔ جتنا ہی پیارا نام اتنی ہی اچھی سیرت کے مالک۔ آغا صاحب یتیم خانے کے ہر بچے کو پیار کرنے والے انتہاٸی خوش اخلاق کے مالک ہیں۔ (اگر آپ آغا صاحب کا مزید انٹروڈکشن چاہتے ہیں تو کمنٹ میں بتا دیجٸے گا۔)
”جی آغا صاحب، کیسے ہیں آپ، کیسی رہی سبین آنٹی سے ملاقات۔؟“
کمرے میں داخل ہوتے وقت یوسف نے خیر و عافیت کے بعد سوال کیا۔
”آہ بیٹا !! تم سے مل کر بہت سکون محسوس کرتا ہوں۔ جہاں تک ملاقات کا سوال ہے تو پہلے کی طرح اس بار بھی وہی تجربہ رہا۔“
آغا صاحب نے یوسف کو گلے لگاتے ہوٸے جواب دیا۔
”مطلب اس بار بھی کافی خطیر رقم ملی ہے۔“
یوسف نے خوش ہوتے ہوٸے پوچھا۔
”ہاں بیٹا !! یہ سب تیری دعاٶں کی وجہ سے ہے۔ اس دفعہ بزنس میں ان کو بہت زیادہ منافع ہوا ہے، وہ بار بار تمہارا پوچھتی رہیں۔ تم ہر دفعہ اگلی بار ساتھ چلنے کا کہتے ہو۔ اس بار تو انہوں نے سپاٹ لہجے میں کہا ہے کہ اگر اگلی بار یوسف نا آیا تو وہ مدد کے طور پر ڈونیشن نہیں دیں گی۔“
آغا صاحب نے یوسف کے چہرے کو چومنے کے بعد سنجیدہ ہوتے ہوٸے جواب دیا۔
”وہ ہر دفعہ یہی کہتی ہیں خیر کتنی رقم دی ہے اس بار۔؟“
یوسف نے سوالیہ انداز اپنایا۔
”پورے بیس ہزار ہیں۔ کیا اتنی رقم کافی نہیں ہے۔؟“
آغا صاحب نے الٹا یوسف سے سوال کر دیا۔
کنول جو اب تک دونوں کی باتوں سے محفوظ ہو رہی تھی مکاملے میں شامل ہوتے ہوٸے کہا۔
”کیا واقع میں بیس ہزار دیے ہیں؟ اس سے تو ایک ماہ کا راشن اور کچھ بچوں کے کپڑے آرام سے آ جاٸیں گے۔ اور اس بار میں اپنے بھاٸی کے لیے لازمی سوٹ بنواٶں گی۔“
”ہاں بیٹی یہ کام تو تم ہی کر سکتی ہو ورنہ یہ لڑکا تو اپنے بارے میں سوچتا ہی نہیں، بس اپنے بھاٸی بہنوں کی فکر رہتی ہے اس کو۔“
آغا صاحب نے کنول کی طرف داری کرتے ہوٸے جواب دیا۔
”کنول بتا رہی تھی کہ آپ نے مجھے کہیں لے کر جانا ہے۔؟“
یوسف نے کنول کی طرف اشارہ کرتے ہوٸے آغا صاحب سے سوال کیا۔
”ہاں بیٹا !! جلدی سے تیار ہو جاٶ۔ ہم تھوڑی دیر میں نکلیں گے۔ بازار سے کچھ سامان لانا ہے اور کسی سے ملنے بھی جانا ہے.“
آغا صاحب نے جواب دیا۔
آپ اسلم کو بھی تو ساتھ لے جا سکتے تھے، مجھے لے جانا ضروری ہے کیا۔؟
یوسف نے اعتراز کرتے ہوٸے کہا۔
”ہاں بہت ضروری ہے۔ شیخ صاحب سے ہو کر ہم نے کسی سے ملاقات کرنی ہے۔ یا یوں سمجھ لو کہ تمہاری ملاقات کروانی ہے کسی سے۔“
جواب دیتے وقت آغا صاحب کے چہرے پر سنجیدگی چھا گٸی۔
”خیرت تو ہے نہ۔؟ آپ کا اس طرح سے بات کرنا کچھ عجیب سا محسوس ہو رہا ہے۔“
یوسف نے گھبراتے ہوٸے پوچھا۔
”گھبرانے کی ضرورت نہیں نہ ہی فکر کرنے والی بات ہے بس کسی کا کوٸی مسٸلہ حل نہیں ہو رہا تم نے بس ان کے لیے دعا کرنی ہے۔ مجھے یقین ہے ہر بار کی طرح اس بار بھی تمہاری دعا ضرور قبول ہوگی۔“
آغا صاحب نے شفقت سے یوسف کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوٸے کہا۔
چلیں پھر ساٸیکل نکالیں میں ابھی ہاتھ منہ دھو کر اور بالوں میں کنگھی کر کے آتا ہوں۔
(یہاں سے یہ کہانی آپ بیتی کی صورت میں شروع ہو گی۔)
تھوڑی دیر بعد ہم بازار میں کریانہ کی دکان میں ایک ماہ کا اکٹھا سودا سلف خرید رہے تھے۔ پچھلا جتنا بھی ہمارا قرضہ تھا وہ بھی ادا کر چکے تھے۔
دکان کا مالک بہت ہی اچھا انسان ہے انہوں نے کبھی ہمیں پیسوں کے معاملے میں تنگ نہیں کیا، ہتاکہ تین تین مہینے گزر جانے کے بعد بھی انہوں نے کبھی شکایت نہیں کی۔ جب تک ملازم سودے کا تول کرتا رہا تب تک ہماری شیخ آصف صاحب سے بات چیت جاری رہی۔ سب ہی ان کو پیار سے شیخ صاحب کہتے ہیں لہذا میں بھی محترم کو شیخ صاحب ہی کہتا ہوں۔
سلام دعا اور خیر و عافیت کے بعد شیخ صاحب آغا صاحب سے متوجہ ہوٸے۔
شیخ صاحب: آغا صاحب آپ تو تب ہی نظر آتے ہیں جب ادھار چکانا ہوتا ہے۔ کبھی ہم سے ویسے ہی ملاقات کرنے آ جایا کریں۔ خدا جانے آپ میں کیسی روحانی کشش ہے کہ آپ سے مل کر روح تک کو سکون پہنچتا ہے۔
آغا صاحب: شیخ صاحب یقین کریں میرا بھی آپ سے ملاقات کو دل مچلتا ہے لیکن کیا کروں بچوں سے فرصت نہیں ملتی میرے علاوہ کون ہے جو ان بے سہاروں اور بے آسرا بچوں کی دیکھ بھال کرے۔ اور پھر ان کی زندگی آسان کرنے کے لیے سیاستدانوں اور بزنس مین لوگوں سے چندا بھی اکٹھا کرنا پڑتا ہے۔ بس یہی وجہ ہے کہ آپ جیسے نیک صفت لوگوں سے ملاقات سے محروم رہتا ہوں۔
شیخ صاحب: بلکل بلکل !! جانے کیوں لوگ ان معصوم بچوں کو بے آسرا کر کے جہنم کا سامان کرتے ہیں، پھر بعد میں رب سے سہارا مانگنے کی آس لگاٸے ہوتے ہیں۔ اللہ عزوجل ان کو ہدایت دے۔ یہ لیں جی آپ کا سامان آگیا ہے ابھی لے کر جاٸیں گے یا پہلے مفتی صاحب سے ملنے جاٸیں گے۔
میں دونوں کے مکالمے میں دخل اندازی کرتے ہوٸے آغا صاحب سے مخاطب ہوا کہ: میرا خیال ہے پہلے ہمیں وہاں جانا چاہیے جہاں آپ مجھے لے جانا چاہتے ہیں۔
آغا صاحب نے جواب دیتے ہوٸے کہا: ہاں ہم وہاں پہلے جاٸیں گے۔ اچھا جی شیخ صاحب ہم یہ سودا سلف واپسی پر لیتے جاٸیں گے ابھی کے لیے ہم اجازت چاہتے ہیں۔
”آغا صاحب اب تو بتادیں ہم جا کہاں رہے ہیں۔؟“
میں ان سے پوچھا۔
آغا صاحب نے جواباً بتایا ”بیٹا ہم کسی کی کوٹھی میں جا رہے ہیں اور وہاں پہنچ کر تم زیادہ باتیں نہ کرنا۔“
”اس بات سے آپ کا مطلب یہ ہوا کہ میں بہت باتونی ہوں۔؟“ میں نے ناراضگی ظاہر کی۔
”نہیں بیٹا تم تو بہت سلجھے ہوٸے لڑکے ہو اسی لیے تو میں تمہیں ساتھ رکھتا ہوں ورنہ تم سے بھی بڑے تمہارے کافی بھاٸی ہیں۔“ آغا صاحب نے ساٸیکل چلاتے ہوٸے کہا۔
___________________________
”یہ کون سا علاقہ ہے اور یہ کس کا گھر ہے۔؟“
میں نے آغا صاحب سے پوچھا۔
آغا صاحب نے کہا: ”تھوڑی دیر اور صبر کر لو تمہیں سب پتہ چل جاٸے گا کہ یہ کس کا گھر ہے اور ہمارا یہاں کیا کام ہے۔ خاص طور پر تمہارا کیا کام ہے۔“
دوسری دفعہ بیل بجانے کے بعد اندر سے نسوانی آواز نے ہم سے ہمارے بارے پوچھا کہ ہم کون ہیں اور کس کام سے آٸے ہیں۔
آغا صاحب نے اپنا تعارف کروایا اور بتایا کہ ہم یتیم خانے سے آٸے ہیں ہمیں جناب محترم ماجد حمید سے ملنا ہے۔
عورت نے بیٹھک کا دروازہ کھولا اور ہمیں وہاں اکیلا چھوڑ کر یہ کہتے ہوٸے اندر چلی گٸی کہ اس کے میاں ابھی واش روم میں ہیں تھوڑی دیر میں فریش ہو کر ہم سے ملاقات کریں گے۔
پانچ منٹ تک وہ ہمارے لیے جوس لے آٸی ابھی ہم نے جوس ادھا ہی پیا تھا کہ وہ شخص جس سے آغا صاحب مجھے ملانے لاٸے تھے وہ گیا اور اس کے دیکھ کر ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معذرت چاہتا ہوں آپ لوگوں سے۔ آپ لوگوں کو میں اپنے بارے بتانا ہی بھول گیا۔ مختصر سا تعارف کرواتا ہوں پھر اپنی زندگی کا قصہ آگے بڑھاٶں گا۔
میرا نام محمد یوسف ہے میں نے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی۔ میرا نام میرے باپ سمان آغا صاحب نے رکھا تھا۔ اللہ ان کو جنت میں اعلٰی مقام و مرتبہ عطا فرماٸیں ( آمین ).
مجھے نہیں معلوم میرا بچپن کس قدر خستہ حالت میں گزرا۔ جب ہوش سمبھالا تو خود کو لاہور کے یتیم خانے کے برامدے میں اپنے یتیم بہن بھاٸیوں کے ساتھ شٹاپو کھیلتے پایا۔ پانچ سال کی عمر کا یہ واقع میری زندگی کا سب سے انمول لمحہ ہے۔
مجھے نہیں پتہ میری زندگی کے یہ پانچ سال کس حالت میں گزرے لیکن جو نٸے آنے والے میرے بہن بھاٸی تھے ان کے بدن پر صرف ایک کپڑا ہوتا تھا جو بمشکل ان کا ننہا سا جسم ڈھانپ پاتا تھا۔
ان کو دیکھ کر مجھے احساس ہوتا تھا کہ میں شاید اسی حالت میں لایا گیا تھا۔
یتیم خانے کی انتظامیہ میں جناب فیصل محمود صاحب کا روزانہ کا معمول تھا کہ وہ پیدل میلوں تک گلی محلوں سے گزرتے اور جہاں بھی کوٸی نومولود بچی یا بچہ نظر آتا وہ میرا بہن یا بھاٸی کہلاتا۔
جناب فیصل صاحب کسی تعریف کے محتاج نہیں۔
ان کی ہی مہربانیوں سے ہم بہن بھاٸیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا تھا۔ جس دن وہ خالی ہاتھ لوٹ کر آتے تو اس دن یتیم خانے میں جیسے عید کا سماں ہوتا ہر کسی کی زباں سے اللہ کا شکر ادا ہو رہا ہوتا کہ اللہ کا شکر ہے آج کے دن کوٸی یتیم یا بے آسرا نہیں ہے۔
کہنے کو تو یتیم خانہ تھا لیکن یہاں زیادہ تعداد ان بچوں کی تھی جو بے سہارا بے یار و مددگار پیداٸشی حالت میں ناگزیر جگہوں سے لاٸے گٸے تھے۔ ایسے بچے جو معاشرے میں کسی کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں وہ یاں تو پہلے ہی میڈیسن کھا کر قتل کر دیٸے جاتے ہیں اور اگر میڈیسن کا اثر نا ہو تو بات آپریشن تک پہنچ جاتی ہے۔ اور کچھ عورتیں تو آپریشن سے بھی نہیں گزرتیں کہ کہیں کسی کو پتہ چل گیا تو بدنامی ہوگی صرف اسی ڈر سے سٹدی ٹور یا بزنس ٹور کا بہانہ بنا کر کچھ عرصہ غاٸب رہتی ہیں۔
ایک دن تو عجیب ہی بات ہو گٸی۔ اس دن آنے والا بچہ میری عمر کا تھا یعنی چار سال سے تھوڑا ہی چھوٹا تھا۔ اس کا وقت اس کا نام بھی عجیب سا لگتا تھا بہرام خان۔
وہ کسی سے بات نہیں کرتا تھا ہمیشہ چپ رہتا اور روتا رہتا۔ ویسے تو یتیم خانے میں سب ہی روتے تھے اور تھوڑی دیر بعد چپ ہو جاتے تھے لیکن وہ تو ہر وقت روتا رہتا تھا اور چپ ہی رہتا تھا۔
کچھ دن تک اس کا یہی معمول رہا پھر آہستہ آہستہ وہ بھی ہم میں گھل مل گیا۔
اس سے باتوں کے دروان پتہ چلا کہ اس کے ماں فوت گٸی ہے جبکہ باپ نے دوسری شادی کر لی ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ شادی کے پہلے دو سال تو اس کی سوتیلی ماں نے اچھا سلوک برتا لیکن جب اس کا سوتیلہ بھاٸی آٹھ یا نو ماہ کا ہوا تو وہ اپنے ساتھ بہرام کو لاہور اپنے ماٸیکے لے آٸی۔ انارکلی بازار میں کپڑوں اور باقی ضروری سامان کی خریداری کے دوران موقع پاتے ہی بہرام خان کو بازار میں تنہا چھوڑ کر چلی گٸی۔
( یہ بات بعد میں پتہ چلی تھی جب بہرام کے باپ کو ڈھونڈنے کے بعد بہرام کو اس کے حوالے کیا گیا۔ تب اس عورت نے یہ انکشاف کیا تھا کہ وہ جلاپے کی غرض سے بہرام کو در بدر ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ آٸی تھی۔)
No comments:
Post a Comment