تکبیر تشریق
کسے کہتے ہیں؟
تکبیر تشریق اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد کو کہتے ہیں۔ (درمختار)۔
Takbeer e Tashreeq kay Ahkaam | Zhul Hajj 2024
تکبیر تشریق کب
سے کب تک پڑھیں۔؟
عرفہ کا دن
یعنی ذی الحجہ کی نویں تاریخ کی فجر سے ذی الحجہ کی تیرہ تاریخ کی عصر تک ہر فرض نماز
کے فوراً بعد بلند آواز سے ایک مرتبہ تکبیر تشریق پڑھنا واجب ہے۔ البتہ عورتیں یہ
تکبیر آہستہ آواز سے کہیں تاہم حساب سے یہ کل بتیس نمازیں ہوتی ہیں جن کے بعد تکبیر
تشریق کہنا واجب ہے اور ان پانچ دنوں کو جن میں یہ تکبیر کہی جاتی ہے "ایام
تشریق" کہتے ہیں۔ (درمختار)۔ یہ تکبیریں ہر شخص پر واجب نہیں ہیں ان کے واجب ہونے
کی کچھ شرطیں ہیں جن کو تفصیلی بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔
تکبیر تشریق واجب
ہونے کی شرطیں
تکبیر تشریق
واجب ہونے کے لیے درج ذیل تین شرطیں ہیں اگر یہ تینوں شرطیں کسی شخص میں موجود ہوں
تو ایام تشریق میں اس پر تکبیر تشریق واجب ہے اگر ان میں سے ایک شرط بھی نہ پائی
جائے تو تکبیر تشریق واجب نہیں۔ ( ہدایہ ۔ خلاصة الفتاوی' )
·
مقیم ہونا، مسافر پر تکبیر تشریق واجب نہیں۔
·
شہر ہونا، گاؤں گوٹھ والوں پر تکبیر تشریق واجب
نہیں۔
·
جماعت مستحبہ ہونا، اکیلے نماز پڑھنے والوں پر اور
تنہا عورتوں کا با جماعت نماز ادا کرنے سے ان پر تکبیر تشریق واجب نہیں۔
شرائط کی ضروری
تشریح
پہلی شرط کا
مطلب یہ ہے کہ جو لوگ کسی جگہ مقیم ہوں جیسے اپنے وطن اصلی میں ہوں یا مسافر نے کسی
جگہ جہاں اقامت کی نیت معتبر ہوتی ہو کم از کم پندرہ دن قیام کی نیت کر لی ہو اور
باقی دو شرطیں بھی موجود ہوں تو اس پر ایام تشریق میں تکبیر تشریق واجب ہے۔ مسافر
شخص پر تکبیر تشریق واجب نہیں ہے خواہ وہ الگ نماز پڑھے یا اپنے ہی جیسے کسی امام کی اقتدا میں نماز باجماعت
ادا کرے اور اگرچہ یہ مسافر یا مسافروں کی جماعت کسی شہر میں ہو اور اپنی جماعت
کریں، ان پر بہرحال تکبیر تشریق واجب نہیں، البتہ اگر یہ مسافر یا مسافرین کسی
مقیم امام کی اقتدا میں شہر یا قصبہ میں نماز باجماعت ادا کریں تو پھر ان پر بھی امام
کے تابع ہو کر تکبیر تشریق واجب ہو جائے گی۔
دوسری شرط کا
مطلب یہ ہے کہ چونکہ جمعہ اور عیدین کے لیے شہر یا قصبہ ہونا شرط ہے، کسی چھوٹے
گاؤں گوٹھ جمعہ و عیدین جائز نہیں، اس لیے ان کے باشندوں پر تکبیر تشریق بھی ایام
تشریق میں واجب نہیں، اگرچہ گاؤں والے اپنی فرض نماز باجماعت ادا کریں، البتہ اگر
یہ لوگ کسی شہر یا قصبہ میں آ کر مقیم امام کی اقتداء میں نماز باجماعت ادا کریں تو امام کی تابع ہو کر ان
پر بھی تکبیر واجب ہو جائے گی۔
تیسری شرط کا
مطلب یہ ہے کہ مذکورہ بالا دو شرطوں کے ساتھ تکبیر تشریق واجب ہونے کے لیے یہ بھی
ضروری ہے کہ ایام تشریق میں جن فرض نمازوں کے بعد تکبیر تشریق کہنا واجب ہوتا ہے ان
فرض نمازوں کو باجماعت ادا کیا گیا ہو اور وہ جماعت بھی مستحب جماعت ہو، مکروہ
جماعت نہ ہو مثلاً کسی مرد امام کی اقتدا میں وہ فرض باجماعت ادا کیا گیا ہو تو اس
جماعت کے شریک تمام مقتدیوں پر امام سمیت تکبیر تشریق واجب ہو گی۔ لیکن اگر باوجود
پہلی دو شرطوں کے پائے جانے کے کسی شخص نے ایام تشریق کی فرض نمازیں کل یا بعض بغیر
جماعت کے تنہا ادا کیں تو اس پر تنہا ادا کی جانے والی نمازوں کے بعد تکبیر تشریق
واجب نہیں۔
اسی طرح اگر
تنہا عورتوں نے مل کر کسی عورت ہی کو امام بنا کر اس کی اقتدا میں کوئی فرض نماز
باجماعت ادا کی تو ان پر بھی تکبیر تشریق واجب نہیں ہوگی، کیونکہ عورتوں کی جماعت،
جماعت مستحبہ نہیں ہے بلکہ مکروہ تحریمی ہے، اسی طرح اگر عورتیں الگ الگ نمازیں
ادا کریں تو ان پر تکبیر تشریق واجب نہیں۔ البتہ شہر یا قصبہ میں عورتیں کسی مقیم مرد
امام کی اقتداء فرض نمازیں باجماعت ادا کریں اور امام نے ان کی اقتداء کی نیت بھی
کر لی ہو تو جو نمازیں وہ امام کی اقتداء میں ادا کریں گی ان نمازوں کے بعد ان پر
بھی امام کے تابع ہو کر تکبیر تشریق واجب ہو جائیگی۔ مگر عورتوں کو مساجد میں جا
کر مردوں کی جماعت میں شریک ہو کر نماز ادا کرنا جائز نہیں، مکروہ تحریمی ہے۔
(بحروشامی)
ایک ضروری
وضاحت
ایام تشریق میں
تکبیر تشریق واجب ہونے کے لیے جو شرائط اوپر ذکر کی گئی ہیں یہ حضرت امام اعظم ابو
حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک ہیں اور اکثر علماء اور فقہا رحمہم اللہ نے امام
اعظم رحمتہ اللہ علیہ کے مسلک ہی کو ترجیح دی ہے اور روایت اور درایت دونوں لحاظ
سے امام صاحب کے قول ہی کو زیادہ قوی قرار دیا ہے۔ (امدادالاحکام)
لیکن حضرات صاحبین
رحمہما اللہ کے نزدیک تکبیر تشریق واجب ہونے کے لئے ان شرائط بالا میں سے کوئی شرط
لازم نہیں ہے، ان کے نزدیک ایام تشریق میں تکبیر تشریق امام، مقتدی، مسبوق، منفرد،
شہری، دیہاتی مقیم، مسافر، مرد اور عورت سب پر واجب ہے اور بعض فقہاء کرام رحمہم
اللہ نے صاحبین رحمہما اللہ کے قول پر بھی فتویٰ دیا ہے اور ان کے قول پر عمل کرنا
زیادہ بہتر اور زیادہ احتیاط کی بات ہے۔ اس لئے مذکورہ بالا تمام افراد کو ایام
تشریق میں ہر فرض نماز کے بعد تکبیر تشریق کہہ لینی چاہیے۔ (امدادالاحکام)
تکبیر تشریق
بھول جانے کا حکم
تکبیر تشریق ہر
فرض نماز کے بعد فوراً کہنی چاہیے اگر کوئی شخص اس وقت کہنا بھول جائے یا جانکر نماز
کے منافی کوئی کام کرے مثلاً قہقہقہ مار کر ہنس پڑے یا کوئی بات کر لے خواہ جان کر
یا بھول کر یا مسجد سے چلا جائے تو پھر تکبیر تشریق نہ کہنی چاہئے اور اس کی قضا
بھی نہیں ہے۔ ہاں توبہ کرنے سے تکبیر تشریق چھوڑنے کا گناہ معاف ہو جائے گا لہذا
توبہ کر لے اور آئندہ خیال رکھے۔ البتہ اگر کسی شخص کا وضو نماز کے بعد فورا ٹوٹ
جائے تو بہتر یہ ہے کہ اسی حالت میں فوراً تکبیر کہہ لے اور وضو کرنے نہ جائے اور
وضو کر کے کہہ لے تب بھی جائز ہے۔ ( علم الفقہ وفتاوی دارلعلوم مدلل)۔
اگر امام تکبیر
کہنا بھول جائے
اگر کسی نماز
کے بعد امام تکبیر کہنا بھول جائے تو مقتدیوں کو چاہئے کہ فوراً تکبیر کہہ دیں یہ
انتظار نہ کریں کہ جب امام کہے تب وہ کہیں۔ (در مختار)۔
تکبیر تشریق
کتنی بار کہیں
تکبیر تشریق ہر
فرض نماز کے بعد صرف ایک مرتبہ پڑھنے کا حکم ہے اور صحیح قول کے مطابق ایک سے زیادہ
مرتبہ کہنا خلاف سنت ہے۔ (شامی وفتاوی دارلعلوم مدلل)۔
بقر عید کی
نماز کے بعد تکبیر تشریق کا حکم
بقر عید کی
نماز کے بعد تکبیر تشریق کہنے نہ کہنے میں اختلاف ہے، بعض کے نزدیک کہہ لینا واجب
ہے۔ ( درمختار و بہشتی گوہر )۔
No comments:
Post a Comment