Akhri Chattan Urdu Novels by Naseem Hajazi Part 07

Akhri Chattan Urdu Novels by Naseem Hajazi Part 07

آخری چٹان - نسیم حجازی

پہلا حصہ 

یوسف بن ظہیر

07 پارٹ نمبر  




آٹھ دن کے بعد مسلمانوں کی فوج چاروں طرف سے یروشلم پر یلغار کر رہی تھی۔ سلطان صلاح الدین ایک سفید گھوڑے پر سوار حملہ آور فوج کی رہنماٸی کر رہا تھا۔ وہ سپاہی جسے سلطان نے سب سے پہلے کمند ڈال کر قلعے کی فصیل پر چڑھتے دیکھا، یوسف تھا۔ اوپر سے تیروں اور پتھروں کی بارش ہو رہی تھی اور یوسف سر پر ڈال رکھ کر کر اپنا بچاٶ کر رہا تھا۔ فصیل پر پہنچنے کے لٸے اس کی کامیابی کے امکانات بہت کم تھے۔ سلطان نے اپنے دل میں کہا اگر یہ فصیل پر چڑھ گیا تو میں اسے اپنی تلوار انعام میں دوں گا۔ یوسف فصیل پر پہنچ چکا تھا اور چند نوجوان اس کی تقلید کر رہے تھے۔ یوسف کی تلوار چند آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتار چکی تھی۔ سلطان اپنے جرنیل سے کہہ رہا تھا” اب وہ 
میرے گھوڑے کا بھی حق دار ہے“۔
چند مجاہد فصیل پر چڑھ کر یوسف پر عقب سے حملہ کرنے والے پہرے داروں کو روک رہے تھے اور یوسف اپنے پے در پے حملوں سے چھ سات سپاہیوں کے پاٶں اکھاڑ چکا تھا۔
صلاح الدین جوش مسرت میں کہہ رہا تھا” نوجوان میں تمہیں ہروال دستے کا سالاراعلیٰ بناتا ہوں“۔ تھوڑی دیر کے لٸے سلطان کی توجہ کسی اور محاظ پر مبذول ہو گٸی، جب دوبارہ اس نے فصیل کے اس حصے کی طرف دیکھا تو اس کی سپاہی اس مقام پر قبضہ جما چکے تھے لیکن یوسف وہاں نہ تھا۔ اس نے اپنے رکاب سے پوچھا” یوسف کہاں گیا“؟۔
اس نے دروازے کے سب سے اونچے برج کی طرف اشارہ کرتے ہوٸے جواب دیا” وہ دیکھیں ! یوسف بہت خطرناک مقام پر لڑ رہا ہے“۔
سلطان نے اوپر نگاہ کی، یوسف کی تلوار بیک وقت تین تلواروں سے لڑ رہی تھی۔ سلطان کے دو سپاہی اس کی مدد کے لیے پہنچ چکے تھے۔
یوسف کی تلوار کی ایک ضرب سے صلیب سرنگوں ہو چکا تھا۔ سلطان نے آنکھوں میں خوشی کے آنسو بھرتے ہوۓ کہا” تم میرے بیٹے ہو میں تمہیں شہر کا والی مقرر کرتا ہوں“۔  لیکن یوسف کے ہاتھ سے تلوار گر چکی تھی اور نوجوان اسے سہارا دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ سلطان نے اسے پہچان لیا یہ احمد بن حسن تھا۔
سلطان کے سپاہی اندر داخل ہو کر قلعے کا دروازہ کھول چکے تھے۔ دشمن ہتھیار ڈال چکا تھا۔ سلطان گھوڑا بھگاتا ہوا قلعے کے اندر داخل ہوا اور گھوڑے سے اتر کر اپنی فوج کے چند افسروں کے ساتھ جلدی سے برج پر چڑھا۔ یوسف کے جسم پر زخموں کے کٸی نشان تھے۔ احمد اسے اپنی چھاگل سے پانی پلا رہا تھا۔ سلطان فرش پر گھٹنے ٹیک کر اس کے قریب بیٹھ گیا۔ اس کی رزہ کھلوا کر اس کے زخم دیکھے اور اس کی نبض پر ہاتھ رکھ کر مخموم لہجے میں کہا” بیٹا میں تمہیں اس شہر کا والی بنا چکا ہوں۔ شاید تمہارا عہد حکومت بہت مختصر ہے اگر شہر والوں کے لیے کوٸی حکم نافذ کرنا چاہتے ہوتو جلدی کرو“۔
یوسف نے پہلے سلطان کی طرف اور پھر احمد کی طرف دیکھا اور بالآخر اس کی نگاہیں لوٹ کر لٹکتے ہوٸے صلیبی جھنڈے پر مرکوز ہو کر رہ گٸیں۔
احمد بن حسن نے کہا” اس شہر کے حاکم کی خواہش یہ ہے کہ وہ فتح کا جھنڈا اپنے ہاتھ سے نصب کرے“۔
سلطان کو ان الفاظ کے ساتھ یوسف کی آنکھوں میں ایک غیر معمولی چمک نظر آٸی۔
سلطان نے دوبارہ اس کی نبض دیکھی اور ایک سپاہی کو جھنڈا لانے کا اشارہ کیا۔ ایک افسر نے ٹوٹا ہوا نشان صلیب اتار کر پھینک دیا۔
سلطان صلاح الدین ایوبی اور احمد بن حسن نے یوسف کو سہارا دے کر اٹھایا۔ یوسف کے بے جان ہاتھوں میں اچانک زندگی آگٸی۔ اس نے جھنڈا نصب کیا
اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ وہ مسکراہٹ جو صرف خدا کی راہ میں شہید ہونے والوں کو نصیب ہو سکتی ہے۔ اچانک اس کے ہونٹوں سے یہ الفاظ نکلے” زاہدہ! یروشلم فتح ہو چکا ہے“۔
سلطان کے حکم سے یوسف کو شاہی محل کے ایک کمرے میں پہنچایا گیا۔ جان کنی کی حالت میں اس نے احمد بن حسن سے جو آخری بات کہی وہ یہ تھی” احمد میری بیوی کی دعا کا صرف ایک حصہ قبول ہوا میں یروشلم کی فتح کی خبر لے کر اس کے پاس نہ پہنچ سکالیکن قدرت کا ایک راز اب میری سمجھ میں آ رہا ہے۔ زاہدہ بغداد میں نہیں کسی اور مقام پر میرا انتظار کر رہی ہے۔ وہ اس دنیا میں ہوتی تو میں یقیناً بغداد پہنچتا۔
جھنڈا نصب کرتے ہوٸے میں یہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ مجھے دیکھ رہی ہے تم بغداد جاٶ۔ اگر وہ زندہ ہے تو بغداد میں سب سے پہلے یروشلم کی فتح کی خبر سننا اس کا حق ہے۔ اگر وہ زندہ نہیں تو میں اپنا بیٹا  تمہیں سونپتا ہوں“۔
اس نے یہ کہہ کر آنکھیں بند کر لیں اور خفیف سی سی آواز میں دہرانے لگا” زاہدہ میں آ گیا ہوں یروشلم فتح ہو گیا میں نے فتح کا جھنڈا اپنے ہاتھوں سے نصب کیا“۔ اس نے دوبارہ آنکھیں کھولیں سلطان اور احمد کی طرف دیکھا لیکن ایک لمبی سانس کے بعد اس کی آنکھوں کے سامنے موت کے پردے حاٸل ہو چکے تھے۔
 سلطان نے کہا” احمد تم فوراً بغداد جانے کی تیاری کرو میں تمہیں کچھ رقم یوسف کی بیوہ کے لیے دیتا ہوں اگر وہ خدانخواستہ زندہ نہ ہوتو میں اس کے بچے کی پرورش تمہیں سونپتا ہوں“۔
احمد بن حسن نے کہا” میں تیار ہوں اور اگر آپ کی اجازت ہوتو بغداد کے ایک سپاہی کو جو یوسف کا پڑوسی ہے ساتھ لیتا جاٶں“۔



Post a Comment (0)
Previous Post Next Post