Akhri Chattan Urdu Novel by Naseem Hajazi Part 06

Akhri Chattan Urdu Novel by Naseem Hajazi Part 06

آخری چٹان - نسیم حجازی

پہلا حصہ 

یوسف بن ظہیر

 پارٹ نمبر  6



چند دن بعد صلاح الدین ایوبی کی افواج کا کوئی شخص ایسا نہ تھا جو احمد بن حسن اور یوسف بن ظہیر سے واقف نہ ہو۔ ایک سال کے بعد یوسف سلطان کے جانبازوں کے دستے کا سالار اور احمد بن حسن مجلس شوری کا رکن بن چکا تھا۔ دونوں کو ایک دوسرے سے غایت درجے کی عقید تھی۔ میدان جنگ میں اگر احمد بن حسن کو کسی پر رشک آ سکتا تھا تو وہ یوسف تھا اور علماء کی محفل میں یوسف اپنے دوست کی برتری کا اعتراف کرتا تھا۔
یوسف اور احمد نے عہد کر لیے تھا کہ جب تک  یروشلم پر دو بارہ نشان صلیب کی جگہ ہالی پرچم  نصب نہ ہو گا وہ رخصت پر نہیں جائیں گے ۔ جن ایام میں  سلطان صلاح الدین ایوبی یروشلم پر آخری حملے کی تیاری کررہا تھا، بغداد میں سلطان کی فوج کے چند رضا کار جو رخصت پر گے ہوئے تھے، واپس آئے اور ان  میں سے ایک سپاہی نے یوسف کے خمیے میں داخل ہو کر اس کی بیوی کا خط پیش کیا۔ 

یوسف نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوے خط کھول کر پڑھا اور تھوڑی دیر سر جھکا کر سوچنے کے بعد سپاہی کی طرف دیکھنے لگا۔
سپاہی نے کہا۔ میں نے اپنی بیوی کو آپ کو گھر بھیجا تھا۔ وہ آپ کی بیوی کی حالت نازک بیان کرتی تھی۔ آپ کا بچہ میں نے دیکھا تھا، وہ تندرست ہے۔ میں اپنی بیوی سے کہہ آیا ہوں۔ وہ آپ کی بیوی کی تیماداری کر رہی ہے
یوسف  نے اپنے چہرے پر ایک غمکین مسکراہت لاتے ہوئے کہا۔ خدا کو جزادے اور پھر اور پھر دوبارہ خط دیکھنے میں منہمک ہو گیا۔
تھوڑی بعد یوسف تنہا اپنے خمیے میں بے قرار سے ٹہل رہا تھا۔ پانچ چھ مرتبہ پڑھنے کے بعد اسے مختصر سے خط کے یہ الفاظ زبانی یاد ہو چکے تھے میرے آقا! میرے شوہر! بہت انتظار کے بعد آپ کا خط ملا۔ کاش میں بھی آپ کے ساتھ یروشلم پر اسلام کا جھنڈا نصب ہوتے دیکھ سکتی۔ میں قدرے علیل ہوں لکین آپ فکر نہ کریں۔ یروشلم کی فتح کی خبر سن کر میں تندرست ہو جاوں گی ۔ ہاں ، وہ ضرور چاہتی ہیوں کہ مجھے سب سے پہلے یروشلم کی فتح کی خبر سنانے والے آپ ہوں اپنا عہد پورا کیجئے۔ میں رات خدا سے دعا۔کرتی ہوں کہ یروشلم پر جھنڈا نصب کرنے کی سعاوت آپ کے حصے میں آئے۔ طاہر بہت خوش ہے اور محسن کی بیوی میرا بہت خیال رکھتی ہے۔ مجھے کسی قسم کی تکلیف نہیں۔
یوسف خیمے میں ٹہلتے ہوئےیہ الفاظ کبھی آہستہ اور کبھی بلند آواز میں دہرارہا تھا۔ اس کے دل کی دھڑکن کبھی سست ہو رہی تھی ۔ اس کے دل اور دماغ دو مختلف خیالات ، دو مختلف امنگوں اور ارادوں کی کز مکش میں مبتلا تھے چند دن بعد صلاح الدین ایوبی کی افواج کا کوئی شخص ایسا نہ تھا جو احمد بن حسن اور یوسف بن ظہیر سے واقف نہ ہو۔ ایک سال کے بعد یوسف سلطان کے جانبازوں کے دستے کا سالار اور احمد بن حسن مجلس شوری کا رکن بن چکا تھا۔ دونوں کو ایک دوسرے سے غایت درجے کی عقید تھی۔ میدان جنگ میں اگر احمد بن حسن کو کسی پر رشک آ سکتا تھا تو وہ یوسف تھا اور علماء کی محفل میں یوسف اپنے دوست کی برتری کا اعتراف کرتا تھا۔
یوسف اور احمد نے عہد کر لیے تھا کہ جب تک  یروشلم پر دو بارہ نشان صلیب کی جگہ ہالی پرچم  نصب نہ ہو گا وہ رخصت پر نہیں جائیں گے ۔ جن ایام میں  سلطان صلاح الدین ایوبی یروشلم پر آخری حملے کی تیاری کررہا تھا، بغداد میں سلطان کی فوج کے چند رضا کار جو رخصت پر گئے ہوئے تھے، واپس آئے اور ان  میں سے ایک سپاہی نے یوسف کے خمیے میں داخل ہو کر اس کی بیوی کا خط پیش کیا۔ یوسف نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوے خط کھول کر پڑھا اور تھوڑی دیر سر جھکا کر سوچنے کے بعد سپاہی کی طرف دیکھنے لگا۔
سپاہی نے کہا۔ میں نے اپنی بیوی کو آپ کے گھر بھیجا تھا۔ وہ آپ کی بیوی کی حالت نازک بیان کرتی تھی۔ آپ کا بچہ میں نے دیکھا تھا، وہ تندرست ہے۔ میں اپنی بیوی سے کہہ آیا ہوں۔ وہ آپ کی بیوی کی تیمارداری کر رہی ہے۔
یوسف  نے اپنے چہرے پر ایک غمکین مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔ خداآپ کو جزادے اور پھر  دوبارہ خط دیکھنے میں منہمک ہو گیا۔
تھوڑی دیر بعد یوسف تنہا اپنے خیمے میں بے قرار سے ٹہل رہا تھا۔ پانچ چھ مرتبہ پڑھنے کے بعد اسے مختصر سے خط کے یہ الفاظ زبانی یاد ہو چکے تھے:
 میرے آقا! میرے شوہر! بہت انتظار کے بعد آپ کا خط ملا۔ کاش میں بھی آپ کے ساتھ یروشلم پر اسلام کا جھنڈا نصب ہوتے دیکھ سکتی۔ میں قدرے علیل ہوں لیکن آپ فکر نہ کریں۔ یروشلم کی فتح کی خبر سن کر میں تندرست ہو جائوں گی ۔
ہاں ، یہ ضرور چاہتی ہوں کہ مجھے سب سے پہلے یروشلم کی فتح کی خبر سنانے والے آپ ہوں اپنا عہد پورا کیجئے۔ میں رات خدا سے دعا کرتی رہتی  ہوں کہ یروشلم پر جھنڈا نصب کرنے کی سعاوت آپ کے حصے میں آئے۔ طاہر بہت خوش ہے اور محسن کی بیوی میرا بہت خیال رکھتی ہے۔ مجھے کسی قسم کی تکلیف نہیں۔
یوسف خیمے میں ٹہلتے ہوئےیہ الفاظ کبھی آہستہ اور کبھی بلند آواز میں دہرارہا تھا۔ اس کے دل کی دھڑکن کبھی تیز اور کبھی سست ہو رہی تھی ۔ اس کے دل اور دماغ دو مختلف خیالات ، دو مختلف امنگوں اور ارادوں کی کش مکش میں مبتلا تھے۔ اسکے سامنے دو فرائض  تھے۔ ایک طرف حسین اور نوجوان بیوی جس کے ساتھ شادی سے پیلے وہ بالکل تنہا تھا اور شادی کے بعد جس کی حیا میں ڈوبی ہوئی مسکراہٹ اس کے لئے دنیا بھر کے خزانوں سے زیادہ قیمتی تھی۔ وہ بیمار تھی اور خط کے تسلی آمیز لہجے کے باوجود وہ یہ محسوس کر رہاتھا کہ اس کی حالت مخدوش ہے ورنہ وہ معمولی تکلیف کی حالت میں محسن کی بیوی کی تیمارداری  کی ضرورت محسوس نہ کرتی۔ اسے گھر پہنچنا چاہیے۔ وہ خیالات کے برق رفتار گھوڑے پر سوار ہو کر بغداد پہنچتا اور اپنے مکان میں داخل ہوتا۔ زاہدہ ! زاہدہ!! تم کیسی ہو؟ میں آگیا ہوں میری طرف دیکھو۔ آپ ! کیا یروشلم پر اسلام کا پرچم نصب  ہو چکا ہے؟
یہ سوال تصور کے گھوڑے کے لیے تازیانہ ثابت ہوتا اور وہ بغداد کے پر امن گوشے سے لوٹ کر یروشلم کی زرم گاہوں میں پہنچ جاتا اور ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ کر بلند آواز میں کہتا۔ میں اپنا عہد پورا کروں گا، میں ساتھ یروشلم کی خبر لے کر جائوں گا۔
اور وہ تیروں کی بار ش میں خندق عبور کرتا ، قلعے کی دیواریں توڑتا، صلیب کے نشان اکھاڑتا اور ہلال کرپھر یرااڑاتا ہوا قلعے کے  آخری برج تک پہنچ جاتا اور فتح کا نعرہ بلند کرتے اور خون آلود تلوار  نیام میں ڈالتے ہوئے  اپنے صبا رفتار گھوڑے پر سوار ہوتا اور بغداد پہنچ جاتا۔ اپنے گھر کے سامنے گھوڑے سے اترتا اور بھاگ کر اندر داخل ہوتے ہوئے کہتا۔
میری جان ! میری روح! میں آگیا ہوں، یروشلم فتح ہوگیا ہے میں نے قلعے کے سب سے اونچے برج پر امنے ہاتھوں سے اسلامی جھنڈا نصب کیاہے، اور زاہدہ کا حسین اور معصوم چہرہ خوشی سے چمک اٹھتا۔
میں نہیں جائوں گا اس کا آخری فیصلہ تھا۔
احمد بن حسن اس کے کمرے میں داخل ہوا اور اس نے کہا، یوسف بغداد سے چند سپاہی آئے ہیں، تمہارے گھر سے کوئی پیغام آیا؟؟۔
بیوی کا خط آیا ہے، یوسف نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
تم پریشان ہو خیریت تو ہے ؟؟۔
وہ کچھ علیل ہے۔
احمد بن حسن نے غور سے اس کے چیرے کی طرف دیکھا اور ایک لمحہ سوچنے کے بعد پوچھا، تمہیں بلایا ہے ؟؟۔
نہیں ، آپ پڑھ لیجئے، یہ کہتے ہوئے یوسف نے احمد کے ہاتھ میں خط دے دیا۔
احمد نے خط پڑھنے کے بعد کہا، خط میں تو کوئی تشویش کی بات ظاہر نہیں ہوتی ، تاہم تم پریشان ضرور ہو، میں تمہیں ایک خوش خبری سناتا ہوں۔
یوسف نے بے تابی سے سوال کیا، کیسی خوش خبری؟ کیا یروشلم پر جلد حملہ ہونے والا ہے ؟۔
احمد نے جواب دیا ، ہاں! پرسوں ہم یروشلم کی فصیل توڑ رہے ہوں گے اور انشاء اللہ تم ایک ہفتے سے پہلے بغداد والوں کویروشلم کی فتح خوش خبری دینے کے لیے روانہ ہو جائو  گے اور چند منازل تک میں بھی تمہارا ساتھ دوں گا۔
یوسف  نےپھر پوچھا، آپ کو یقین ہے کہ پرسوں حملہ ہو جائے گا؟؟۔
احمد نے جواب دیا، میں ابھی سلطان سے مل کر آ رہا ہوں۔
یوسف کا دل دھڑک رہا تھا۔ اس نے اپنے دوست کی طرف دیکھا اور مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ، کاش ! یہ حملہ آج ہوتا!۔۔۔
احمد نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد پوچھا، میں خط لانے والے کا نام پوچھ سکتا ہوں۔
یہ خط محسن لایا ہے، وہ بغداد میں میرا پڑوسی ہے۔
کس رسالے میں ہے وہ؟۔
وہ ہر اول فوج کے اٹھارہویں دستے کا نائب سالار ہے۔
شام کے وقت احمد بن حسن نے یوسف سے کہا، یوسف! میں محسن سے مل چکا ہوں، اس کی باتوں سے معلوم  ہوتا ہے کہ تمہاری  بیوی کی حالت تسلی بخش نہیں۔ اگر جانا چاہو تو میں سلطان سے تمہاری رخصت کے لیے کہوں؟۔
یوسف نے جواب دیا، نہیں مریضہ کی تیمارداری کا موقع شاید پھر بھی مل جائےلیکن یروشلم کی فتح میں حصہ  لینے کی سعادت شاید دوبارہ نصیب نہ ہو۔

The Admin

HEELO THERE, I AM AMINA MANO FROM LAHORE. I LIKE READING and WRITING. Crazy about novels.

Post a Comment (0)
Previous Post Next Post