Akhri Chattan Urdu Novel by Naseem Hajazi Part 05

Akhri Chattan Urdu Novel by Naseem Hajazi Part 05

آخری چٹان - نسیم حجازی

پہلا حصہ 

یوسف بن ظہیر
 پارٹ نمبر  5



مدینے کے چند اور نوجوانوں کی طرح صلیب کے مقابلے میں ہلال کا پرچم  بلند رکھنے کا جذبہ احمد بن حسن کو بھی مدینہ سے فلسطین لے گیا۔ ہلال و صلیب معمولی معرکوں میں احمد بن حسن ایک گمنام سپاہی کی حثییت سے شریک ہوتا رہا۔ اس کے رسالے کے افسراس کی شجاعت کے معترف تھے لیکن وہ خود اعتمادی جو احمد  بن حسن کی اعلی تعلیم کا نتیجہ تھی ایک مدت تک اس کے راستے میں رکاوٹ بنی رہی   بڑے سے بڑے آدمی کو بھی خوش کرنے کے لیے بھی وہ اپنی رائے بدلنے کے لیے تیار نہ ہوتا۔ اسکے دستے کا سالار ایک ترک تھا  اور وہ اس کی خود اعتمادی کو اس کی خودپسندی سے تعبیر کرتا تھا۔
ایک شاندار فتح کے بعد رات کے وقت صلاح الدین کی افواج ایک وسیع میدان میں دیرہ ڈالے پڑی تھیں ۔ ایک طرف زیتون کے چند درختوں کے قریب احمد بن حسن کے دستے کا سالار چند سپاہیوں اور افسروں کی مجلس میں گزشتہ لڑائی کے واقعات پر تبصرہ کر رہا تھا۔
احمد بن حسن نے کہاں ہے؟ اس نے اچانک ایک سپاہی سے سوال کیا۔
سپاہی نے جواب دیا۔ وہ درخت کے نیچے مشعل کے سامنے بیٹھ کر کوئی کتاب پڑھ رہا ہے۔
ترک افسر نے کہا۔ اگر اسے کتابیں پڑھنے کا اس قدر شوق نہ ہو تو وہ ایک اچھا سپاہی بن ہی سکتا ہے۔ پرسوں وہ سچ مچ ایک سپاہی کی طرح لڑ رہا تھا۔ اس نے پانچ نصرانیوں کو موت کے گھاٹ اتارا اور مجھے یقین نیہں آتا تھا کہ وہ احمد ہےلیکن کتابیں اسے ناکارہ بنادیں گی۔
ایک نوجوان جواب تک  خاموشی سے ایک طرف بیٹھا ہوا تھا، بول اٹھا۔ ہو سکتا ہے وہ محض ایک سپاہی بننے کی بنا ئے ایک فوج کی رہنمائی کے لیے پیدا ہوا ہو! ایک عام سپاہی شاید تلوار سے زیادہ کسی چیز کی ضرورت نہ محسوس کرے لیکن ایک سالار کتابوں کی ضرورت سے انکار نیہں کر سکتا۔
ترک افسر نے نوجوان کے الفاظ کی تلخی کوایک بلند قہقے میں چھپانے کی کو شش کرتے ہوے کہا۔ تو اہل بغداد سب کے سب سالار ہیں ۔یہ وہ فقط کتابیں پڑھتے ہیں۔
نوجوان نے جواب دیا۔ یہ عالم اسلام کی بدقسمتی ہے کہ اہل بغداد کتابوں کے ساتھ تلوار کی ضرورت محسوس نہیں کرتے  ورنہ عالم اسلام کا ہر سپاہی ان کی قیادت میں لڑنا اپنے لیے باعث فخر سمجھتا۔
مشعل سے دور ہونے کی وجہ سے ترک سالار اپنا مخاطب پہچان نہ سکا اس نے ذرا ترش لہجے میں کہا۔ یہ احمد بن حسن کا دوسرا ساتھی کہاں سے آ گیا؟ بھئ آگے آ جاو!
نوجوان کونے سے اٹھ کر سالار کے قریب کھڑا ہو گیا۔ سالار نے کہا۔
  ارے یوسف آج تمہاری زبان کیسے کھل گی؟ بٹیھ جاو میں ہر بہادر کو دیکھ کر خوش ہوتا ہوں۔ تم نے پہلے ہی معرکے میں ہم سب کو اپنا معترف بنا لیا ہے  لیکن اس بات کا خیال رکھو کہ یہاں کی رائے عامہ اہل بغداد کی ستائش کو پسند نہیں کرتی۔
یوسف نے سنجیدگی سے جواب دیا۔ بات کرتے وقت میرے ذہین میں رائے عامہ نہ تھی ،آپ تھے اور اہل بغداد کو اس وقت میں تعریف کے قابل سمجتھا ہوں نہ میں نے ان کی تعریف کی ہے ۔ ان کا ذکر ضمنا آ گیا تھا۔ اصل موضوع یہ تھا کہ سپاہی کو علم سیکھنا چاہیے یا نہیں۔ میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ تلوار ایک ایسا سرکش گھوڑا ہے جس کے لیے علم کی باگ کی ضرورت ہے۔ بغداد والے فقط باگ کو سنوار رہے ہیں۔ ان کے پاس گھوڑانہیں۔
سالار نے پوچھا اور ہمارے متعلق تمہارا کیا خیال ہیں؟
یوسف نے جواب میں پوچھا ۔ہمارے سےآپ کی مراد اپنی ذات یا سلطان صلاح الدین کی فوج؟
ترک افسر نے اس سوال سے پریشان ہو کر گفتگو کا رخ بدلنے کے لیے کہا باتوں میں یہ نوجوان احمد بن حسن کا استاد معلوم ہوتا ہے۔اسے بھی بلاو!
ایک سپاہی اٹھا کر احمد بن حسن کو اپنے ساتھ لے آیا۔ترک سالار نے کہا۔
احمد پرسوں تم سچ مچ ایک سپاہی کی طرح لڑ رہے تھے ۔مجھے تم سے ہرگز یہ توقع نہ تھی ۔۔۔۔۔بیٹھ جاو!
احمد بن حسن نے جواب دیا۔ آپ کو اپنے سپاہیوں سے بڑی توقعات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں۔
ترک افسر نے قدرے کھسیانہ ہو کر کہا۔ تمہارا یوسف سے تعارف ہوا ہے کہ نیہں؟ یہ ہمارے نئے رفیق ہیں۔
احمد نے جواب دیا میں ان سے متعارف ہو چکا ہوں۔
کیا پڑھ رہے تھے تم آج؟
میں خالد بن ولید ؓ کی فتوحات پڑھ رہا تھا۔
ترک افسر نے سوال کیا۔ بھلا خالد بن ولیدؓ کی فتوحات زیادہ ہے یا ہمارے سلطان کی؟ میرے خیال سے اس زمانے کی جنگیں موجودہ جنگوں کے مقابلے معمولی لڑائی ہوا کرتی تھیں۔
احمد بن حسن نے جواب دیا۔ آپ کا خیال عام طور پر صیح نہیں ہوتا۔ میں بے علمی کو قابل معانی سمجھتا ہوں لیکن ریاکاری کو قابل معانی نہیں سمجھتا۔ آپ سلطان کےسامنے ایسی باتیں کر کہ شاید۔انہیں خوش کر سکیں لیکن وہ اس وقت یہاں موجود نہیں ۔۔۔۔میں مانتا ہوں  کہ آپ کو کتابوں سے نفرت ہےلیکن یہ ماننے کے لیے تیار نہی کہ آپ کو ایک مسلمان ماں نے خالد اعظمؓ کے فتوحات کے حالات نہ بتائے ہوں اور  آپ کو فخراور احترام کے ساتھ ان مجاہدین کے نام لینا نہ سکھایا ہو جنھوں نے پیٹ پر پتھر باندھ کر اور جسم پر چیتھٹرے اوڑھ کر قیصروکسریٰ کے تاج روند ڈالے تھے۔ خالد ؓبن ولید کے زمانے میں اکثر جنگیں ایسی تھیں جن میں اسلام کی ایک تلوار کے مقابلے میں دشمن کی دس تلواریں ہوا کرتی تھیں۔ میری باتوں سے آپ کو تکلیف ضرور ہو گی۔ آپ میرے سالار ہے۔ میدان جنگ میں آپ کا ہر اشارہ میرے لیے حکم ہے لیکن وہ بھی اس لیے نہیں کہ آپ کی یا سلطان کی خوشنودی چاہتا ہوں اور اگر سلطان کا احترام میرے دل میں ہے تو محض اس لیے کہ وہ بھی میری طرح اسلام کے سپاہی ہیں۔
 اس قسم کی غلط بیانی سے اسلام کا ایک طالب علم شاید گم راہ نہ ہو سکے لیکن ہو سکتا ہے کہ سلطان کے سامنے اس قسم کی ناجائز خوشامدان میں خودپسندی کاوہ  جذبہ پیدا کر دےجس کے باعث خلفائے بنی عباس اسلام کے لیے ایک عضو معطل بن چکے ہیں۔ اس وقت عالم اسلام بہت سی توقعات سلطان صلاح الدین ایوبی سے وابستہ ہیں۔ اس لیے آپ ابھی سے انہیں خالدؓ اور ابوعبیدہؓ کا ہم پلہ ثابت کر کے مستقبل سے بے نیاز کر دینے کی بجائے ان  کے لیے دعا کریں کہ وہ بڑی سے بڑی منزل پر پہنچ کر بھی یہ محسوس کریں کہ ابھی ان کے سفر کی ابتدا ہوئی ہے۔
احمد بن حسن کچھ اور کہنا چاہتا تھا لیکن اچانک درخت کی اڑ سے ایک نقاب پوش نمودار ہوا اور اس نے آگے بڑھتے ہوے بلند آواز میں کہا۔ خدا صلاح الدین  کو عالم اسلام کی نیک توقعات پورا کرنے کے قابل بنائے اور اس خوشامدیوں سے محفوظ رکھے۔
اجنبی کی آواز میں غصہ اور ہیبت اور جلال تھا۔ سامعین بداحوس ہو کر  اس کی طرف دیکھنے لگے۔ اس نے مشعل کی روشنی کے قریب پہنچ کر چہرے سے نقاب اٹھا دیا۔ ترک افسر سراسمیہ ہو کر بولا سلطان۔۔۔
سب کے سب اٹھ کر کھڑے ہو گئے ۔ سلطان صلاح الدین نے ترک افسر سے مخاطب ہو کر کہا۔ مجھے تمہاری باتیں سن کر بہت دکھ ہوا لیکن تم جاہل ہو ۔تمہاری سزا یہ ہے کہ تم آئندہ چھ ماہ تک فرصت کے اوقات میں اپنے ساتیھوں سے بالکل الگ بیٹھ کر تاریخ پڑھا کرو۔ چھ ماہ بعد میں خود تمہارا امتحان لو گا۔ اگر تم نے میری تسلی کر دی تو تمہیں ترقی دے دی جائے گی ورنہ تنہائی میں بیٹھنے کی سزا بڑھا دی جائے گی اور تم دونوں ادھر آو! سلطان نے احمد بن حسن اور یوسف کی طرف اشارہ کیا۔ احمد اور یوسف آگے بڑھ کر سلطان کے قریب کھڑے ہو گئے۔
سلطان نے پوچھا ۔ تم کہاں سے آئے ہو؟
میں مدینے سے آیا ہوں احمد بن حسن نے جواب دیا۔سلطان یوسف کی طرف متوجہ ہوا۔ وہ بولا ۔میں بغداد سے آیا ہوں۔
تم میری فوج میں کب شریک ہوئے؟
احمد نے جواب دیا۔ مجھے قریب چھ ماہ گزر  چکے ہیں اور یوسف کو کو پانچ دن۔
سلطان نے کہا۔ تم میریے متعلق غلط توقعات ظاہر کرنے کے مجرم ہو، تمہیں کیا سزا دوں؟
احمد نے کہا۔ اگر آپ میری تمام باتیں سننے کے بعد بھی مجھے مجرم قرار دیتے ہیں تو میں اپنی صفائی پیش نہیں کرتا۔
سلطان صلاح الدین نے پیار کے ساتھ احمد کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ سردست میں تمہاری زبان سے متاثر ہوا ہوں۔ مجھے تمہاری سپاہیانہ  صلاحیتوں کا صیح علم نہیں ۔ اس لیے تمہیں بارہ دستوں کا سالار مقرر کرتا ہوں اور یوسف تمہاری آواز میں ایک سپاہی کی خود اعتمادی ہے۔ ممکن ہے تم آگے چل کر اپنے آپ کو بڑی سے بڑی ذمہ داری سنبھالنے کے قابل ثابت کر سکو لیکن سر دست تمہیں پانچ دستوں کا سالار مقرر کرتا ہوں ۔
 تم دونوں کو میں یقین دلاتا ہوں کہ  میرے دل میں فقط جواں مردی اور شجاعت کی عزت ہے، خوشامد کی نہیں اور حضرت خالد ؓکے متعلق شاید میں اپنے جذبات کی صیح ترجمانی کر سکوں۔ کاش میں مصر کا سلطان ہونے کی بجائے اسلام کے مجاہد اعظمؓ کی فوج کا ایک معمولی سپاہی ہوتا۔ میرے لیے نہ صرف وہ مجاہدین بلکہ وہ لوگ بھی قابل رشک ہیں  جنھوں نے شام اور عراق کے میدانوں میں خالداعظمؓ کی افواج کے سواروں کے گرد کے بادلوں میں روپوش ہوتے دیکھا تھا۔ میں اپنی ذات سے غازیان اسلام کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہو جانے والی بڑھیا کا درجہ بلند سمجھتا ہوں۔

x
The Admin

HEELO THERE, I AM AMINA MANO FROM LAHORE. I LIKE READING and WRITING. Crazy about novels.

Post a Comment (0)
Previous Post Next Post