آخری چٹان - نسیم حجازی
پہلا حصہ
یوسف بن ظہیر
پارٹ نمبر 4
طاہر یوسف اس زمانے میں پیدا ہوا تھا جب صلاالدین ایوبیؓ کی تلوار عالم اسلام کیطرف یورپ کی عیسائی طاقتوں کی یلغار روکے ہوئے تھے۔ گزشتہ صدی میں ترکان سلجوق نے ایک طرف بغداد کی عباسی خلفاء کی قیادت میں آرمینیا، ایشائے کو چک اور شام میں ایک وسیع سلطنت قائم کر لی تھی اور دوسری طرف باز نطینی سلطنت سے بحیرہ روم کے بہت سے ساحلی علاقے چھین لیے تھے۔۴٦٣ میں سلجوق ترکوں نے باز نطینی افواج کو ملازجرو کے مقام پر فیصلہ کن شکست دی۔
سلجوتی ترکوں کی بڑھتی ہوئی طاقت سے خوف زدہ یورپ اربن ثانی نے پوپ کی اپیل ایک عرصہ کے لیے کوئی خاطر خواہ نتائج پیدا نہ کر سکی یورپ کے بادشاہ سلجوقیوں کی تلواروں کے سامنے سینہ سپرد ہونے کے لیے پوپ کی طرف سے فقط ثواب آخرت کا وعدہ کافی نہیں سمجھتے تھے۔ان کی نگاہ میں دنیا کی منفعت کے لیےسلجوقیوں سے نبرد آزما ہونا شکار کے لیے عقاب کے گھونسلے میں ہاتھ ڈالنے سے کم خطرناک نہ تھا۔ لیکن اس زمانے میں ایک فرنسیسی راہب اٹھا اور اس نے اچانک یورپ کی عوام کو عالم اسلام کے خلاف مشتعل کر دیا۔اس راہب کا نام پطرس تھا۔اس نے صلیب اٹھائی اور گدھے پر سوار ہو کر پورے یورپ کا چکر لگایا۔ اس کے پھٹے پرانے لباس اور ننگے پاوں سے مظلومیت برستی تھی۔ اس کی نگاہوں میں انتقام کی چنگاریاں تھیں اور زبان پر زہریلے نشتر تھے وہ جہاں جاتا لوگ اس کے گرد جمع ہو جاتے تھے۔ وہ ارض مقدس پر سلجوقیوں کے مظالم کی فرضی داستانیں بیان کرتا خودروتا اور دوسروں کو رلاتا۔ عوام اس کی ہر تقریر کے اختتام پر صلیب کی حرمت کے لیے قربان ہو جانے کی قسمیں کھاتے۔عوام کا جوش و خروش دیکھ کر یورپ کی ہر چھوٹی اور بڑی سلطنت کے حکمران عالم اسلام کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ لڑنے کے لیے تیار ہو گئے ۔ ہلال کے خلاف صلیب کی تمام قہرمانی قوتیں یکجا ہو چکی تھی۔ لیکن ملک شاہ کی وفات تک یہ سیلاب روکا رہا۔ملک شاہ کی وفات کے بعد سلجوتی سلطنت ٹکڑے ہو گئ۔ اس کے تنزل کی رفتار ہندوستان میں اورنگ زیب عالمگیرؒ کی وفات کے بعد سلطنت مغلیہ کے تنزل کی رفتار بھی تیز ہو گی۔
سات سال کے عرصے میں مغرب کی طرف عالم اسلام کا وہ دفاعی مورچہ جسےیورپ کی عیسائی سلطنتیں نا قابل تسخیر سمجھتی تھیں، خود بخود ٹوٹ گیااور ۴٩١ میں عیسائیت کا سیلاب عالم اسلام پر امڈ آیا۔
بغداد میں سلطنت عباسیہ نے ترکان سلجوق کے زوال پر اطمینان کا سانس لیا لیکن وہ عیسائیت کے خوفناک سیلاب کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کر سکے۔ ایک سال کے اندر اندر عیسائیوں نے سلجوقیوں کی رہی سہی طاقت کچل ڈالی اور یروشلم کے علاوہ شام کے بہت سے شہروں اور بندرگاہوں پر قابض ہو گئے اور فلسطین اور شام کے چند علاقے ملا کر ایک عیسائی سلطنت قائم کر دی.
یہ سلطنت عالم اسلام کے سینے پر ایک خنجر تھی۔
قریبا پچاس سال بعد عالم اسلام کا مدافعانہ جذبہ عمادالدین زنگی کی شخصیت میں نمودار ہوا تو اس کے جان تو رحموں صلیب کے عمبرداروں کے دلوں میں غازیاں اسلام کی پرانی ہیبت زندہ کر دی ۔ بغداد کے عباسی خلیفہ کی طرف سے ابتدا میں اس کی حوصلہ افزائی ہوئی اور اس کی شجاعت کی داستانیں سن کر مختلف اطراف سے اسلام کے ہزاروں سرفروش اس کے جھنڈے تلے جمع ہونے لگے لیکن سلطنت کے اندرونی خلفشار کے باعث وہ اپنا کام پورا نہ کر سکے اورارض مقدس میں عیسائی سلطنت کا ٹمٹماتا ہوا چراغ بجھتے بجھتے ہوئے بچ گیا۔ لیکن ۵٨۴ میں مصر صلاح الدین ایوبی کا اقتدر اس چراغ کے لیے ہوا کا آخری جھونکا ثابت ہوا۔
ارض مقدس پھر ایک بارغازیان اسلام کے سمنداقبال کے بوسے لے رہی تھی یورپ کی عیسائی طاقتوں کو صلاح الدین کی تلوار سلجوقیوں کی تلوار سے زیادہ خطرناک نظر آ رہی تھی اور فرنس، جرمنی، اور انگلینڈ کے علاوہ یورپ کی تمام عیسائی سلطنتیں اپنی ٹڈی دل افواج کے ساتھ مشرق میں عیسائیت کے اقتدار کے گرتے ہوئے ستونوں کو سہارا دینے کے لیے آموجود ہوئیں۔
خلافت عباسیہ نے اب کی بار بھی براہراست اس جنگ میں شرکت نہ کی لیکن صلاح الدین ایوبی کے شجاعانہ کارناموں نے جلد ہی عالم اسلام کو اس کا گرویدہ بنا دیا۔ یورپ کی بے شمار افواج کی یلغار سے باخبر ہو کر عرب ، عراق اور ترکستان سے کئی سرفروش یکے بعد دیگرے صلاح الدین ایوبی کے جھنڈے تلے جمع ہونے لگے۔
No comments:
Post a Comment