Akhri Chattan Urdu Novel by Naseem Hajazi Part 03

Akhri Chattan Urdu Novel by Naseem Hajazi Part 03

آخری چٹان - نسیم حجازی

پہلا حصہ 
یوسف بن ظہیر
 پارٹ نمبر  3

 مدینے سے کوئی ڈ یڑھ کوس کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی بستی کی مسجد میں صبح کی نماز کے بعد شیخ احمد بن حسن قرآن وحدیث کا درس دے رہے تھے۔طاہربن یوسف مسجد میں داخل ہوا اور شیخ کی طرف دیکھنے لگا۔
 طاہر کی عمر کوئی بائیس سال کے قریب تھی۔ اس کے دراز قد، سڈول جسم اورحسین چہرے میں غایت درجہ کی شوکت اور دل فریبی تھی۔نگاہوں میں عقاب کی سی بےبا کی اس کی ذہانت کی آئینہ دار تھی۔
 احمد بن حسن نے سوال۔کیا۔"تیار ہو آئے؟"
 “جی ہاں!میں امی جان سے رخصت ہو آیا ہوں۔
 احمد بن حسن نے شاگردوں کو رخصت کیا اور اٹھ کر نوجوان کے ساتھ مسجد سے باہر نکل آئےمسجد کے دروازے سے باہر شیخ کا ایک نوکر گھوڑا لیے کھڑا تھا۔جو سفر کے لیے ضروی سامان سے لیس تھا۔احمد بن حسن نے گھوڑے کی گردن پر تھپکی دی۔گھوڑے نے گردن اٹھائی،کان کھڑے کر لیے اور اگلاسم زمین پر مارنے لگا۔
 احمد بن حسن نے مسکراتے ہوئے طاہر کی طرف دیکھا اور کہا۔
"تمھاراگھوڑاکہہ رہا ہےکہ دھوپ تیز ہو رہی ہے،ہمیں جلد رخصت کرو!
طاہر! میرے ذہین میں اس وقت کوئی ایسی بات نہیں جو میں تم سے بار بار پہلے نہیں کہہ چکا۔بغداد تمہارے لیے ایک نئی دنیا ہو گی۔وہاں تم جیسے نوجوان کے لیے بننے اور بگڑنے کے ہزاروں سامان موجود ہیں۔چاہو تو اس باغ کے کانٹوں سے الجھ کر رہ جاو۔چاہو تو اپنا دامن مہکتے پھولوں سے بھر لو۔بغدادخوبیوں اور برائیوں کا مرکز ہے۔لیکن اب برائیاں زیادہ ہو رہی ہیں اور خوبیاں کم۔تمہیں کئی تلخیوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور کئی حوصلہ شکن مراحل سے گزرنا ہو گا۔قاضی فخرالدین میرا خط پڑھ کر یقینا تمہارے لیےبہت کچھ کریں گے۔اور ممکن ہےکہ انکی مدد سے تم دربار خلافت تک رسائی حاصل کر سکو۔دربار خلافت پر ترک اور ایرانی امرای کا غلبہ ہے۔وہ تمہارا راستہ روکنے کی ہر ممکن کوشش گے۔ لیکن مجھے تمہاری صلاحتیوں پر بھروسہ ہے۔تم علم کے گہرے دریاوں کی سیر کر چکے ہو۔مدینےکے بہترین دماغ تمہاری ذہانت پررشک کرتے ہیں۔ مومن کی زندگی کا دوسرا جوہر سپہ گری ہے  اور تم تلوار سے کھیلنا بھی جانتے ہو۔ اس وقت عالم اسلام کو تمہارے علم سے زیادہ تمہاری تلوار کی ضرورت ہےبغداد میں قاضی فخر الدین تمہارے لیے بہترین رہنما ثابت ہوں گے۔ اگر ان کے وسیلے سے تم کوئی بلند مرتبہ حاصل کر لو تو یہ بات یاد رکھنا کہ 
امارت کا نشہ برا ہوتا ہے خدا کی خوشنودی کو خلیفہ کی خوشنودی پر مقدم سمجھنا اور ہمیشہ خیال رکھنا کہ تم عبدالملک بننے کے لیے نہیں ہو ۔اپنی دولت کے لحاظ سے تم۔بغدد کے امیر ترین لوگوں میں شمار کیے جاو گے۔میں نے ان جواہرات میں سے ایک ہیرا ایک جوہری کو دیکھا تھا اور اس نے مجھے بتایا تھا کہ کہ اس کی قیمت دس ہزار دینار سے کم نیہں۔ میں ان میں سے پانچ بڑے بڑے ہیرے رکھا لیے ہیں۔ وہ۔میرے پاس امانت رہیں گے۔ اس کے علاوہ میں نےتجارت میں تمہآرا حصہ رکھا تھا۔ اگر تمہیں اعتراض نہ ہو تو میں تمہارے لیے یہاں ایک باغ خرید لو؟"
نوجوان نے کہا۔"مجھے آپ نے مجبور کیا ہے ورنہ میں تو اتنی دولت ساتھ کے جانے کی ضرورت نیہں سمجھتا"۔
شیخ نے کہا۔اس کے متعلق کافی بحث ہو چکی ہے اور بغدد جا کر تمہیں محسوس ہو گاکہ میری رائے صیح تھی۔ ہاں اس دولت سے کہیں زیادہ قمیتی چیز تمہارے پاس صلاحالدین کی تلوار ہے اور تم اس کا حق ادا کرنا جانتے ہو۔ اب چلو تم دیر ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔امین کہاں ہے؟"
“ وہ میرے ساتھ کو بضد تھا۔میں نے نوکر کے ساتھ شہر بھیج دیا ہے۔" گھوڑے کی باگ پکڑتے ہوے ئے طاہر نے مصافحے کے لیے شیخ کی طرف ہاتھ بڑھایا شیخ نے مصافحے کی بجائے اپنا ہاتھ پھیلا دیئے اور آگے بڑھ کر نوجوان کو گلے لگا لیا۔
میرے بیٹے اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہآ۔ تمہاری جدائی ہمارے لیے بہت صبر آزما۔ہو گی۔خدا تمہارے نیک ارادوں میں برکت دے۔
احمد سے بغل گیر ہونے کے بعد نوجوان نے خداحافظ کہہ کر مصافحے کے لیے دوبار ہاتھ بڑھایا لیکن احمد نے کہا۔تم گھوڑے پر سوار ہو جاو!
نیہں! مجھ سے یہ گستاخی نہیں ہو سکتی۔ یہ کہہکر نوجوان نے ھوڑے سےکی کو شش کی لیکن شیخ نے اسے ہاتھ سے روکتے ہوئے کہا۔بیٹا! مجھے ایک مجاہد کے گھوڑے کی باگ پکڑنے کی سعادت سے محروم نہ کرو۔اگر صدیق اکبرؓ اسامہ بن زیدؓ کے گھوڑے کی باگ تھام کر اپنا سر مبارک فخر سے اونچا کر سکتے تو مجھے بھی اپنی خوش بختی پر ناز ہے۔ نڑھاپے میں میرے نحیف ہاتھ اگرچہ تلوار نہیں اٹھا سکتے لکین ان میں تمہارے گھوڑے کی باگ تھامنے کی قوت ابھی باقی ہے۔خوش بخت ہے وہ قوم جس کے افراد جوانی میں تلواروں سے کھلتے ہیں اور بڑھاپے اپنے بچوں کے گھوڑوں کی باگ پکڑ کر انھیں میدان جہاد کا راستہ دکھاتے ہیں۔
احمد بن حسن طاہر کے گھوڑے کی باگ پکڑتے ہوے نخلستان۔سے باہر نکلے۔ وہ کچھ دوراور اس کے ساتھ جانا چاہتے تھے لکین طاہر نے کہا۔ْپ زیادہ تکلیفنہ کیجئے، مجھے اجادت دیئجے۔
احمد بن حسن نے گھوڑے کی باگ طاہر کے ہاتھ میں دیتے ہوے کہا۔ طاہر میں نے سناہے کہ بغداد کے درختوں کی چھاوں بہت ٹھنڈی ہوتی ہے۔ بیٹا وہاں جا کر سو نہ جانا اور وہاں زید کا خیال رکھنا۔وہ بہت سیدھا آدمی ہے۔بغدادکے امراء کے ہوشیار اور چالاک نوکروں سے اس کا مقابلہ نہ کرنا اس کی سادگی کبھی کبھی حماقت کی حد تک پہنچ جاتی ہے لیکن اس کی بہادری اور ایثار اس کی ہر کوتاہی کی تلافی کرتا ہے۔
طاہر نے کہا۔آپ اطمینان رکھیے، میں اسے اپنا بہترین دوست سمجھتا ہوں ۔
احمد بن حسن نے خدا حافظ کہہ کر گھوڑے کی باگ چھوڑ دی۔


The Admin

HEELO THERE, I AM AMINA MANO FROM LAHORE. I LIKE READING and WRITING. Crazy about novels.

Post a Comment (0)
Previous Post Next Post